معروف شیعہ عالم دین مولانا ڈاکٹر کلب صادق بھارت کے مشہور و معروف علمی مذہبی خاندان 'خاندان اجتہاد' کے عالم تھے۔
ان کی پیدائش بھارت میں 22 جون 1939 کو یونائیٹڈ پروینسیز کے لکھنؤ میں ہوئی تھی۔ ان کی شروعاتی تعلیم سلطان المدارس میں ہوئی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی ملت کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے وقف کر دی تھی۔
ڈاکٹر کلب صادق اپنی ہر مجالس میں جہالت کے خلاف لڑنے کے لیے عوام کو بیدار کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مسلم سماج میں تعلیم فراہم کرانے کے لیے صرف زبانی جدوجہد نہیں کی بلکہ توحید المسلمین ٹرسٹ قائم کر کے دوسروں کے لیے نظیر بھی پیش کی۔
قابل ذکر ہے کہ مولانا کلب صادق نے 1984 میں 'توحید المسلمین ٹرسٹ' قائم کیا، جس کا مقصد سماج کے غریب و بے سہارا بچے بچیوں کو تعلیم یافتہ کر کے سماج و ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والا بنانا۔ اسی ضمن میں لکھنؤ میں انگلش میڈیم کا یونٹی کالج قائم کیا۔ غریب بے سہارا پریوار کے بچوں کو سیکنڈ شفٹ میں مفت تعلیم کے لیے 'مشن اسکول' بھی بنایا۔ ٹیکنیکل کورسز کے لیے انڈسٹریل اسکول اور لکھنؤ کے کاظمین میں چیریٹیبل ہسپتال قائم کر کے مثالی کام کیا ہے۔
مولانا کلب صادق نے ہندو مسلم، شیعہ سنی اتحاد کے لیے ہمیشہ کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی مذاہب اور مکاتب فکر میں عزت اور شہرت حاصل کی۔ ان کی زندگی میں سادگی، اعلی اخلاق اور خدمت خلق کے لیے مولانا کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
سنہ 2015 میں 'شولڈر ٹو شولڈر فاونڈیشن' کے زیر اہتمام شیعہ سنی ایک ساتھ نماز ادا کی جس میں سب سے بڑا نام مولانا کلب صادق کا ہے۔ وہ صرف اتحاد اور بھائی چارے کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
مولانا کلب صادق کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ بے باک اور بے خوف ہو کر اپنی بات کہتے تھے۔ ایک بار انہوں نے بیان دیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آتا ہے، تب بھی مسلم سماج وہ زمین ہندو بھائیوں کو رام مندر کے لئے قربان کر دیں کیونکہ "ایک ٹکڑا زمین کا دے کر کروڑوں دلوں کو جیت لیں گے۔ حالانکہ ان کے بیان کو مسلم پرسنل لا بورڈ سے اتفاق رائے کا اظہار نہیں کیا تھا۔
ایسا ہی ایک معاملہ ہے، جب وہ شہر کے گھنٹہ گھر میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف دھرنے پر بیٹھی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے جمعہ کے دن گئے تھے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت تک کوئی بھی عالم دین خواتین کے حق میں گھنٹہ گھر نہیں گئے تھے۔
ڈاکڑ کلب صادق نے نہ صرف خواتین کی حوصلہ افزائی کی بلکہ کہا کہ انہیں حکومت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس دن مولانا صادق نے صرف 'ای ٹی وی بھارت' سے بات چیت کی اور حکومت سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ میں خواتین کے ساتھ ہوں اور حکومت کی مذمت کرتا ہوں۔
ایک بار مولانا نے کہا تھا کہ "مجھے مسلمانوں سے شکایت ہے لیکن ہندوؤں سے کبھی شکایت نہیں آئی کیونکہ ہندوؤں نے مجھے ہمیشہ عزت اور پیار دیا ہے۔"
مسلمانوں سے پوچھئے دین کیا ہے؟ کہیں گے کہ نماز پڑھنا، روزے رکھنا، حج کرنا لیکن یہ دین نہیں ہیں۔ مولانا کلب صادق نے 2016 میں خطاب میں کہا تھا کہ "مسلمانوں کو خود جینے کا سلیقہ نہیں پتہ اور نوجوانوں کو مذہب کا راستہ دکھاتے ہیں۔ انہیں پہلے خود کو آئڈیل بنانا ہوگا، جس سے مسلم نوجوان ان کی راہ پر چلیں۔ آج مسلمانوں کو دھرم سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔
اگر چہ وہ شیعہ عالم دین تھے تاہم ملک و بیرون ممالک کے تمام مکاتب فکر میں ادب و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے جہاں وہ شیعہ برادری میں معروف و مقبول تھے، وہیں سنی حلقوں میں بھی انہیں نہایت ادب سے دیکھا جاتا تھا۔
گزشتہ سال جب وہ بیمار ہوئے تب راج ناتھ سنگھ ان کی عیادت کے لیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ بھارت کے معروف دھرم گرو مراری باپو بھی ان کی بے حد عزت کرتے تھے اور ان کی باتوں کو ہمیشہ توجہ سے سنا کرتے تھے۔
مولانا کلب صادق محض عالم دین نہیں تھے بلکہ سماج کو ایک نئی راہ دکھانے والے تھے۔ وہ صرف مسلم سماج کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ سماج کے ہر طبقے کی بات کرتے تھے۔