ETV Bharat / state

وہ خاتون مجاہد آزادی، جنہیں اپنے وطن میں دو گز زمیں تک نہ ملی

author img

By

Published : Apr 8, 2021, 12:41 PM IST

Updated : Apr 8, 2021, 1:21 PM IST

1857 کی جنگ آزادی کی چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کرنے میں بیگم حضرت محل کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے نہ صرف جنگ آزادی میں انگریز افواج کے خلاف بھارتی عوام کی رہنمائی کی بلکہ انہوں نے تنظیمی صلاحیتوں اور حکمت عملی کے سبب تقریباً آٹھ سے نو ماہ تک اودھ ریاست کی حکمرانی بھی کی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انہیں بھی مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی طرح اپنے ملک میں دو گز زمین میسر نہیں ہوئی۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
وہ خاتون مجاہد آزادی، جنہیں اپنے وطن میں دو گز زمین تک نہ ملی

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران نواب ظفر میر عبداللہ نے بتایا کہ بیگم حضرت محل کی پیدائش 1820ء میں فیض آباد میں ہوئی تھی۔ ان کے بچپن کا نام 'محمدی خانم' تھا۔ بچپن میں ہی ان کے والدین نے انہیں فروخت کر دیا تھا، جس کے بعد انہیں شاہی حرم میں داخل کیا گیا تھا۔

دیکھیں ویڈیو

بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی دوسری بیوی تھیں۔ نواب واجد علی شاہ نے انہیں 'بیگم' کا خطاب دیا اور جب ان کے بیٹے 'رمضان برجیس قدر' کی پیدائش ہوئی تو انہیں 'حضرت محل' کے خطاب سے نوازا گیا۔

1856 میں انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ کو ایک 'معاہدے' پر دستخط کرنے کو کہا لیکن واجد علی نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ "میں صرف نام کا نواب نہیں رہنا چاہتا۔" اس کے بعد انہیں کلکتہ بھیج دیا گیا۔ 9 جولائی 1857 میں بیگم حضرت محل نے اپنے نابالغ فرزند رمضان علی برجیس قدر کو چاندی والی بارہ دری میں تخت نشین کرایا۔

شام کو تیز بارش میں 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ بیگم حضرت محل 'راج ماتا' بنیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے بیش قیمتی زیورات ملک کی خدمات میں پیش کر دیے، جب لکھنؤ میدان جنگ بن گیا اور چنہٹ، سکندر باغ، قدم رسول، شاہ نجف امام باڑہ، بیگم کوٹھی، بڑا امام باڑہ، آصفی مسجد، ریزیڈنسی میں زبردست جنگ ہوئی۔ اس کے نتیجے میں 75 ہزار لوگ قتل ہوگئے۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
بیگم حضرت محل

قابل ذکر ہے کہ لکھنو میں بیگم حضرت محل کی ایک فوج خواتین کی تھی جس کی رہنمائی 'رحیمی' کر رہی تھیں۔ انہوں نے مرد فوجیوں کی طرح وردی پہن کر تمام خواتین کو توپ اور بندوق چلانا سکھایا۔ ان کی قیادت میں خواتین نے کئی محاذوں پر انگریزوں سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست بھی دی۔

آج جس میدان میں بیگم حضرت محل پارک بنا ہوا ہے، 1857 میں یہاں پر بیگم حضرت محل اور انگریزوں کے مابین مقابلہ ہوا تھا جس میں بیگم کے فوجیوں نے انگریز 'کمانڈر ان چیف جنرل نیل' جو گھوڑے پر سوار تھا، اسے بیگم کے فوجیوں نے توپ کے گولے سے اڑا دیا تھا۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
بیگم حضرت محل پارک

پارک میں آج بھی جنرل نیل کی قبر بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو قتل کرنے والے انگریز افسر ہڈسن کو لکھنؤ میں بیگم کی فوج نے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس کے بعد انگریزی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ کر ریزیڈنسی میں پناہ لی تھی۔ یہاں بھی بیگم کے فوجیوں نے ریزیڈنسی کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً تین ماہ تک بیگم کی فوج اور انگریزوں کے مابین جنگ چلتی رہی۔

ریزیڈنسی میں ایک اونچا مینار بھی ہے جس میں بندوق کی گولیوں اور توپ کے گولے کے نشانات ابھی بھی باقی ہیں۔ اسی مینار پر آج بھارتی پرچم شان سے لہرا رہا ہے لیکن ایک وقت وہ بھی تھا، جب انگریزی جھنڈا (یونین جیک) لہرایا کرتا تھا۔

نوابی فوجی اس پرچم کو گولی مار کر گرا دیتے تھے لیکن انگریز رات میں دوبارہ لگا دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ جاری رہا۔ بدقسمتی سے دس ماہ بعد اسی میدان میں انگریزی فوج نے بھی بیگم کے فوجیوں کو شکست دی۔ 5000 وفادار ہندو اور مسلم مجاہدین اس میدان کارزار میں اپنی جانیں وطن پر قربان کر دیئے لیکن ان میں سے ایک بھی فرار نہ ہوا۔

بیگم حضرت محل نے جب یہ صورتحال دیکھی تو پردے سے باہر نکل آئیں مگر عین وقت پر مولانا احمد شاہ اللہ 2000 جانبازوں کو لے کر انگریزوں کا گھیرا توڑ کر بیگم اور ان کے فرزند برجیس قدر کو باہر نکال لے گئے۔

اس کے بعد بیگم حضرت محل کو بھارت کے کسی بھی مقام پر ٹھکانہ نہیں ملا، تب مجبوری میں انہیں نیپال میں پناہ لینی پڑی۔ وہاں کے بادشاہ نے انہیں پانچ سو روپے ماہانہ خرچ کے لئے پینشن دیا لیکن بدلے میں بیگم حضرت محل کے تمام قیمتی زیورات کو اپنے پاس رکھ لیا۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
بیگم حضرت محل

بیگم حضرت محل کی قبر نیپال کے کاٹھمنڈو شہر میں آج بھی موجود ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ بیگم حضرت محل کو اپنے ملک میں دو گز زمین دفن ہونے کے لیے نہیں ملی۔

مزید پڑھیں:

یو پی سنی سینٹرل وقف بورڈ مسلم لڑکیوں کو وظیفہ دے گا

بیگم نے وہاں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔ 7 اپریل 1879 میں بیگم کی وفات ہوئی اور انہیں مسجد کے پاس ہی دفن کر دیا گیا تھا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران نواب ظفر میر عبداللہ نے بتایا کہ بیگم حضرت محل کی پیدائش 1820ء میں فیض آباد میں ہوئی تھی۔ ان کے بچپن کا نام 'محمدی خانم' تھا۔ بچپن میں ہی ان کے والدین نے انہیں فروخت کر دیا تھا، جس کے بعد انہیں شاہی حرم میں داخل کیا گیا تھا۔

دیکھیں ویڈیو

بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی دوسری بیوی تھیں۔ نواب واجد علی شاہ نے انہیں 'بیگم' کا خطاب دیا اور جب ان کے بیٹے 'رمضان برجیس قدر' کی پیدائش ہوئی تو انہیں 'حضرت محل' کے خطاب سے نوازا گیا۔

1856 میں انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ کو ایک 'معاہدے' پر دستخط کرنے کو کہا لیکن واجد علی نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ "میں صرف نام کا نواب نہیں رہنا چاہتا۔" اس کے بعد انہیں کلکتہ بھیج دیا گیا۔ 9 جولائی 1857 میں بیگم حضرت محل نے اپنے نابالغ فرزند رمضان علی برجیس قدر کو چاندی والی بارہ دری میں تخت نشین کرایا۔

شام کو تیز بارش میں 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ بیگم حضرت محل 'راج ماتا' بنیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے بیش قیمتی زیورات ملک کی خدمات میں پیش کر دیے، جب لکھنؤ میدان جنگ بن گیا اور چنہٹ، سکندر باغ، قدم رسول، شاہ نجف امام باڑہ، بیگم کوٹھی، بڑا امام باڑہ، آصفی مسجد، ریزیڈنسی میں زبردست جنگ ہوئی۔ اس کے نتیجے میں 75 ہزار لوگ قتل ہوگئے۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
بیگم حضرت محل

قابل ذکر ہے کہ لکھنو میں بیگم حضرت محل کی ایک فوج خواتین کی تھی جس کی رہنمائی 'رحیمی' کر رہی تھیں۔ انہوں نے مرد فوجیوں کی طرح وردی پہن کر تمام خواتین کو توپ اور بندوق چلانا سکھایا۔ ان کی قیادت میں خواتین نے کئی محاذوں پر انگریزوں سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست بھی دی۔

آج جس میدان میں بیگم حضرت محل پارک بنا ہوا ہے، 1857 میں یہاں پر بیگم حضرت محل اور انگریزوں کے مابین مقابلہ ہوا تھا جس میں بیگم کے فوجیوں نے انگریز 'کمانڈر ان چیف جنرل نیل' جو گھوڑے پر سوار تھا، اسے بیگم کے فوجیوں نے توپ کے گولے سے اڑا دیا تھا۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
بیگم حضرت محل پارک

پارک میں آج بھی جنرل نیل کی قبر بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو قتل کرنے والے انگریز افسر ہڈسن کو لکھنؤ میں بیگم کی فوج نے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس کے بعد انگریزی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ کر ریزیڈنسی میں پناہ لی تھی۔ یہاں بھی بیگم کے فوجیوں نے ریزیڈنسی کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً تین ماہ تک بیگم کی فوج اور انگریزوں کے مابین جنگ چلتی رہی۔

ریزیڈنسی میں ایک اونچا مینار بھی ہے جس میں بندوق کی گولیوں اور توپ کے گولے کے نشانات ابھی بھی باقی ہیں۔ اسی مینار پر آج بھارتی پرچم شان سے لہرا رہا ہے لیکن ایک وقت وہ بھی تھا، جب انگریزی جھنڈا (یونین جیک) لہرایا کرتا تھا۔

نوابی فوجی اس پرچم کو گولی مار کر گرا دیتے تھے لیکن انگریز رات میں دوبارہ لگا دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ جاری رہا۔ بدقسمتی سے دس ماہ بعد اسی میدان میں انگریزی فوج نے بھی بیگم کے فوجیوں کو شکست دی۔ 5000 وفادار ہندو اور مسلم مجاہدین اس میدان کارزار میں اپنی جانیں وطن پر قربان کر دیئے لیکن ان میں سے ایک بھی فرار نہ ہوا۔

بیگم حضرت محل نے جب یہ صورتحال دیکھی تو پردے سے باہر نکل آئیں مگر عین وقت پر مولانا احمد شاہ اللہ 2000 جانبازوں کو لے کر انگریزوں کا گھیرا توڑ کر بیگم اور ان کے فرزند برجیس قدر کو باہر نکال لے گئے۔

اس کے بعد بیگم حضرت محل کو بھارت کے کسی بھی مقام پر ٹھکانہ نہیں ملا، تب مجبوری میں انہیں نیپال میں پناہ لینی پڑی۔ وہاں کے بادشاہ نے انہیں پانچ سو روپے ماہانہ خرچ کے لئے پینشن دیا لیکن بدلے میں بیگم حضرت محل کے تمام قیمتی زیورات کو اپنے پاس رکھ لیا۔

special story on freedom fighter begum hazrat mahal
بیگم حضرت محل

بیگم حضرت محل کی قبر نیپال کے کاٹھمنڈو شہر میں آج بھی موجود ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ بیگم حضرت محل کو اپنے ملک میں دو گز زمین دفن ہونے کے لیے نہیں ملی۔

مزید پڑھیں:

یو پی سنی سینٹرل وقف بورڈ مسلم لڑکیوں کو وظیفہ دے گا

بیگم نے وہاں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔ 7 اپریل 1879 میں بیگم کی وفات ہوئی اور انہیں مسجد کے پاس ہی دفن کر دیا گیا تھا۔

Last Updated : Apr 8, 2021, 1:21 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.