ETV Bharat / state

اے ایم یو قانون فیکلٹی کی تاریخ

سرسید احمد خان بذات خود قانون سے واقف تھے، بطور جج کام بھی کیا۔ قانون پر گہری نگاہ رکھتے اس لیے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں قانون کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیتے۔ اگر سرسید کی زندگی پر غور کیا جائے تو ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ قانونی اصطلاحات، قانونی مشورے اور قانونی نکات پر کام کرنے پر ملتا ہے۔ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں قانون کی کلاسز کا افتتاح 29 دسمبر 1891 کو ہوا۔

special report on amu law faculty history
اے ایم یو قانون فیکلٹی کی تاریخ
author img

By

Published : Dec 31, 2020, 7:44 PM IST

سرسید احمد خان جب انگلینڈ گئے تو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ گئے، جہاں ان دونوں نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کا بھی دورہ کیا اور وہاں کی تعلیمی نظام کو دیکھا۔

دیکھیں ویڈیو

سرسید نے محسوس کیا کہ قانون کی تعلیم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیے بہت ضروری ہے، اس کام کو کرنے کے لیے انہوں نے جسٹس اسٹریٹ، جسٹس محمود اور جناب آرتھر اسٹریچی، برایٹ لاء، جو کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے کی ایک کمیٹی تشکیل کی، جس کا مقصد تھا کہ وہ کالج میں قانون کی تعلیم کے سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کریں۔

اے ایم یو قانون فیکلٹی کے ڈین پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سر سید احمد خان نے جو کمیٹی تشکیل دی اس کمیٹی نے ایک تفصیلی سفارش 5 مارچ 1891 کو دی، جس کے بعد قانون کی کلاسز کا افتتاح جسٹس ڈگلس اسٹیٹ نے 29 دسمبر 1891 کو کیا۔

چوں کہ سید محمود بذات خود جج تھے اور وہ کالج کے قیام کی کمیٹی میں شامل تھے۔ اس لیے انہوں نے قانون کی تعلیم میں دلچسپی دکھائی اور اپنی ذاتی لائبریری، جس کی قیمت اس وقت دس ہزار روپئے تھی، کا ایک بڑا حصہ کالج کو عطیہ کر دیا اور اسی کے ساتھ ساتھ پندرہ سو روپے کی رقم قانون کی کلاس میں چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے مختص کر دی۔

special report on amu law faculty history
سید محمود

شکیل احمد صمدانی نے بتایا کہ سنہ 1952 میں پروفیسر حفیظ الرحمن نے صدر شعبہ کا چارج لیا اس وقت یونیورسٹی میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح قانون کی تعلیم کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور قانون کی کلاس دوسرے شعبوں کے کمرے میں ہوتی تھی اور اس وقت ایل ایل بی کا کورس دو سال کا ہوتا تھا اور قانون کی تعلیم کا مقصد صرف جونیئر وکلاء پیدا کرنا تھا۔

special report on amu law faculty history
شاہ سلیمان

انہوں نے بتایا کہ قانون کی تعلیم پارٹ ٹائم کے طور پر ہوتی تھی، صبح و شام کلاسز ہوتی تھی۔ پہلے قانون فیکلٹی کی کوئی عمارت نہیں تھی تو موجودہ طبیہ کالج کے پیچھے عمارت میں کلاس ہوتی تھی اس کے بعد سرسید ہال میں کلاسز ہوئی۔

سنہ 1960 میں قانون فیکلٹی کا قیام ہوا اور شعبہ قانون، فیکلٹی میں شامل ہو گیا انہی کی کوششوں سے پارٹ ٹائم ٹیچرز کی تعداد کم کر دو کر دی گئی، دو پروفیسر فل ٹائم، چار ریڈر، دس لیکچرر اور ایک انگریزی کا لیکچر رکھا گیا۔

special report on amu law faculty history
موٹ کورٹ بلڈنگ

پہلی بار دو طالب علم نے 1954 میں ایل ایل ایم کا امتحان پاس کیا۔ قانون فیکلٹی میں ریسرچ یعنی تحقیق کا کام 1961 میں شروع ہوا اور 1968 میں جناب این آر مادھو مینن نے پہلی پی ایچ ڈی پروفیسر حبیب الرحمن کے زیر نگرانی میں کی۔

اس کے بعد بہت سارے طلبہ نے شعبہ قانون میں تحقیق مکمل کی۔ موجودہ وقت میں قانون فیکلٹی میں 28 تدریسی اور 22 غیر تدریسی عملہ ہے۔ ہماری فیکلٹی گزشتہ دس برسوں میں ہمیشہ ٹاپ ٹین میں رہی ہے۔ یونیورسٹی قلعہ کے قریب اپنی قانون فیکلٹی کی عمارت ہے۔ جہاں ہر سال 120 طلبہ و طالبات داخلہ لیتے ہیں۔

special report on amu law faculty history
اے ایم یو قانون فیکلٹی کی تاریخ

مزید پڑھیں:

کورونا ویکسین کا بحالت مجبوری استعمال کرنا جائز

قانون فیکلٹی کے فارغین بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں، اگر سپریم کورٹ کی بات کی جائے تو قانون فیکلٹی نے چار جج دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کی خاصی تعداد جج امتحان میں کامیابی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018 میں 26 طلبہ ریاست اتر پردیس میں سول جج بنے۔

سرسید احمد خان جب انگلینڈ گئے تو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ گئے، جہاں ان دونوں نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کا بھی دورہ کیا اور وہاں کی تعلیمی نظام کو دیکھا۔

دیکھیں ویڈیو

سرسید نے محسوس کیا کہ قانون کی تعلیم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیے بہت ضروری ہے، اس کام کو کرنے کے لیے انہوں نے جسٹس اسٹریٹ، جسٹس محمود اور جناب آرتھر اسٹریچی، برایٹ لاء، جو کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے کی ایک کمیٹی تشکیل کی، جس کا مقصد تھا کہ وہ کالج میں قانون کی تعلیم کے سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کریں۔

اے ایم یو قانون فیکلٹی کے ڈین پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سر سید احمد خان نے جو کمیٹی تشکیل دی اس کمیٹی نے ایک تفصیلی سفارش 5 مارچ 1891 کو دی، جس کے بعد قانون کی کلاسز کا افتتاح جسٹس ڈگلس اسٹیٹ نے 29 دسمبر 1891 کو کیا۔

چوں کہ سید محمود بذات خود جج تھے اور وہ کالج کے قیام کی کمیٹی میں شامل تھے۔ اس لیے انہوں نے قانون کی تعلیم میں دلچسپی دکھائی اور اپنی ذاتی لائبریری، جس کی قیمت اس وقت دس ہزار روپئے تھی، کا ایک بڑا حصہ کالج کو عطیہ کر دیا اور اسی کے ساتھ ساتھ پندرہ سو روپے کی رقم قانون کی کلاس میں چھوٹے موٹے اخراجات کے لیے مختص کر دی۔

special report on amu law faculty history
سید محمود

شکیل احمد صمدانی نے بتایا کہ سنہ 1952 میں پروفیسر حفیظ الرحمن نے صدر شعبہ کا چارج لیا اس وقت یونیورسٹی میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح قانون کی تعلیم کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور قانون کی کلاس دوسرے شعبوں کے کمرے میں ہوتی تھی اور اس وقت ایل ایل بی کا کورس دو سال کا ہوتا تھا اور قانون کی تعلیم کا مقصد صرف جونیئر وکلاء پیدا کرنا تھا۔

special report on amu law faculty history
شاہ سلیمان

انہوں نے بتایا کہ قانون کی تعلیم پارٹ ٹائم کے طور پر ہوتی تھی، صبح و شام کلاسز ہوتی تھی۔ پہلے قانون فیکلٹی کی کوئی عمارت نہیں تھی تو موجودہ طبیہ کالج کے پیچھے عمارت میں کلاس ہوتی تھی اس کے بعد سرسید ہال میں کلاسز ہوئی۔

سنہ 1960 میں قانون فیکلٹی کا قیام ہوا اور شعبہ قانون، فیکلٹی میں شامل ہو گیا انہی کی کوششوں سے پارٹ ٹائم ٹیچرز کی تعداد کم کر دو کر دی گئی، دو پروفیسر فل ٹائم، چار ریڈر، دس لیکچرر اور ایک انگریزی کا لیکچر رکھا گیا۔

special report on amu law faculty history
موٹ کورٹ بلڈنگ

پہلی بار دو طالب علم نے 1954 میں ایل ایل ایم کا امتحان پاس کیا۔ قانون فیکلٹی میں ریسرچ یعنی تحقیق کا کام 1961 میں شروع ہوا اور 1968 میں جناب این آر مادھو مینن نے پہلی پی ایچ ڈی پروفیسر حبیب الرحمن کے زیر نگرانی میں کی۔

اس کے بعد بہت سارے طلبہ نے شعبہ قانون میں تحقیق مکمل کی۔ موجودہ وقت میں قانون فیکلٹی میں 28 تدریسی اور 22 غیر تدریسی عملہ ہے۔ ہماری فیکلٹی گزشتہ دس برسوں میں ہمیشہ ٹاپ ٹین میں رہی ہے۔ یونیورسٹی قلعہ کے قریب اپنی قانون فیکلٹی کی عمارت ہے۔ جہاں ہر سال 120 طلبہ و طالبات داخلہ لیتے ہیں۔

special report on amu law faculty history
اے ایم یو قانون فیکلٹی کی تاریخ

مزید پڑھیں:

کورونا ویکسین کا بحالت مجبوری استعمال کرنا جائز

قانون فیکلٹی کے فارغین بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں، اگر سپریم کورٹ کی بات کی جائے تو قانون فیکلٹی نے چار جج دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کی خاصی تعداد جج امتحان میں کامیابی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018 میں 26 طلبہ ریاست اتر پردیس میں سول جج بنے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.