میر انیس نمبر کو چار باب میں تقسیم کیا گیا۔ باب اول اخلاق و اسلاف کے نام پر مشتمل ہے، باب دوم آثار و اقدار ، باب سوم دید ہائے رنگا رنگ اور باب چہارم کو چیدہ و چنیدہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔
میر انیس پر شائع ہونے والے اس خصوصی شمارہ میر انیس میں ان کی زندگی کے تمام گوشوں کو احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نئے دور ماہنامہ رسالہ کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر وجاہت حسین رضوی نے بات چیت کے دوران بتایا کہ میر انیس جن کا اردو ادب میں ایک بڑا نام ہے، اس دور میں ان کے کارناموں کو فراموش کیا جارہا ہے، ایسے میں ضرورت تھی کہ میر انیس نمبر شائع کرکے ان کی زندگی کے تمام گوشوں کو عوام کے درمیان پیش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میر انیس کی خدمات کو بیشتر لوگ مرثیہ تک محدود رکھتے ہیں حالانکہ اردو شاعری میں مرثیہ کے علاوہ غزل گوئی میں بھی اہم نام ہے یہ اور بات ہے کہ میر انیس کا ایک اہم کارنامہ مرثیہ گوئی ہے۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ میر انیس نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا اور کم عمری میں ہی اپنی صلاحیت کے جوہر دکھانے شروع کر دیے تھے لیکن والد کی ہدایت پر انیس نے غزل کو خدا حافظ کہا اور اپنا سارا کلام صحن کے حوض میں پھینک دیا۔
اس کے بعد انیس نے ساری شاعری اہل بیت کے لئے وقف کر دی اور پھر پیچھے مڑ کر غزل کی طرف نہیں دیکھا یہی وجہ کی انیس کے مرثیوں میں تغزل بدرجہ اتم موجود ہے اور اسی چیز نے انیس کے مرثیوں کو جلا بخشی ہے۔
میر انیس اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے محلہ گلاب باڑی 1803 ء میں پیدا ہوئے اور 73 برس کی عمر میں لکھنو میں انتقال کر گئے۔
واضح رہے کہ میر انیس نمبر جو کی ڈاکٹر وجاہت حسین رضوی کی نگرانی میں شائع ہوا ڈاکٹر رضوی بھی اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ یہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو ناولٹ پر تحقیقی و تنقیدی کام کیا جو کہ اب تک بھارت اور پاکستان میں نہیں ہوا تھا۔
ان کی اردو ادب میں اب تک تقریبا نو کتابیں شائع ہو چکی ہیں فی الحال محکمہ اطلاعات و نشریات میں ضلعی افسر کے عہدے پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔