ETV Bharat / state

UP Madaras Mordern Teachers مدرسہ ماڈرن ٹیچرز پنکچر بنانے، ای رکشا چلانے پر کیوں مجبور ہیں؟

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 5, 2023, 1:35 PM IST

Updated : Oct 5, 2023, 3:50 PM IST

ریاست اترپردیش میں سنہ 1993 میں اس وقت کی بی جے پی قیادت والی انجہانی اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے مدارس میں بہتر تعلیم کے لیے مارڈن ٹیچر کی اسکیم کا اعلان کیا تھا۔

UP Madaras Mordern Teachers
UP Madaras Mordern Teachers
UP Madaras Mordern Teachers

لکھنؤ: اترپردیش میں حکومت کی جانب سے لانچ کردہ مارڈن ٹیچر اسکیم کا مقصد تھا کہ مدارس میں دینی علوم کے ساتھ جدید علوم بھی بچوں کو میسر ہو۔ لیکن موجودہ بی جے پی کی حکومت نے گزشتہ پانچ برس زائد مدرسے میں تعلیم دے رہے ماڈرن ٹیچروں کو تنخواہ نہیں دی ہے۔ جس کی وجہ سے یوپی میں 21546 ٹیچرس کسمپرسی کے شکار ہیں۔

اتر پردیش کے 7442 مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ مدارس میں 21546 ماڈرن ٹیچر تعلیم دے رہے ہیں جن کو 40 فیصد تنخواہ ریاستی حکومت دیتی ہے جب کہ 60 فیصد تنخواہ مرکزی حکومت دیتی ہے لیکن گزشتہ تقریبا 6 برس سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ ٹیچرس ای رکشہ چلانے پر مجبور ہیں تو کوئی ٹیوشن پڑھا کر کے روز مرہ کی زندگی گزار رہا ہے، تو کوئی بنکاری اور کئی سائیکل کے پنچر تک بنا رہے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے مدرسہ ماڈرن ٹیچر سے بات چیت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ گزشتہ تقریبا 6 برس سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کو کن کن مسائل کا سامنا ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے مدرسہ ماڈرن ٹیچر رفعت جہاں بتاتی ہیں کہ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ریاست کے 21 ہزار ٹیچروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض ایسے ٹیچر ہیں جن کو علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور وہ انتقال کر گئے۔ کئی ایسے ٹیچر ہیں جو ہارٹ اٹیک جیسی بیماریوں سے بھی دو چار ہیں۔ جب کہ دیگر ٹیچرز مزدوری کر پرچون کی دکان چلا کر کے یا دیگر ذرائع سے محنت و مشقت کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تنخواہ کے حوالے سے ہم نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے بھی بات چیت کی۔ مرکزی اقلیتی وزیر اسمرتی ایرانی سے بھی بات چیت کی اور ریاستی کابینہ وزیر دھرم پال سنگھ سے بھی بات چیت کی۔ سبھی نے یقین دہانی کرائی کی جلد ہی تنخواہ ریلیز کر دی جائے گی لیکن کوئی بھی کاروائی نہیں دکھ رہی ہے۔ رفعت جہاں سے جب یہ سوال کیا کہ آپ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دیتی ہیں بیمار ہوتے ہیں تو علاج کیسے کراتی ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے دیتے اشکبار ہو گئیں انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے ٹیچرز بھی ہیں جو مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ اگر اسلام میں خودکشی حرام نہ ہوتی تو ہم خود کشی کرلیتے۔ اس حد تک ہم لوگ پریشان ہوچکے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ مدرسہ ماڈرن ٹیچر پر یہ الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ ان کی تقرری میں بدعنوانی ہوئی ہے اس کی جانچ مسلسل ہوتی ہے۔ نہ صرف مدرسہ بورڈ اور ضلع اقلیتی فلاح و بہبود کے افسران بلکہ پرائمری ایجوکیشن کے افسران بھی جانچ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی تنخواہ نہیں دی جا رہی ہے۔

مدرسہ ماڈرن ٹیچر کی ندیم خان نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم لوگوں کی زندگی یومیہ مزدور کی زندگی سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔ ایک مزدور ایک دن کام کرتا ہے تو اس سے 500 روپے ملتے ہیں لیکن مدرسہ ماڈرن ٹیچر کو 100 روپیہ بھی نہیں ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوستوں سے قرض لیتے ہیں۔ علاج کے لیے بچوں کی فیس جمع کرتے ہیں۔ اور قرض کا بوجھ اب بہت بڑھ چکا ہے۔ حکومت سے ہمیں یہی امید ہے کہ حکومت ہم لوگوں کی تنخواہ دے گی اور ہماری زندگی آگے بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم کمپیوٹر جانتے ہیں، ٹائپنگ کر کے گزر بسر کرتے ہیں اور کچھ بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتے ہیں لیکن کئی ہمارے ساتھی ایسے ہیں جو دن میں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور خالی وقت میں وہ سائیکل کا پنچر بنا کر اپنا ہاتھ کالا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ افسوسناک لمحہ ہے کہ حکومت جو دعوی کرتی ہے کہ مسلمان بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہوگا اور اسی دعوی کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ہم لوگ مسلسل محنت کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ گزشتہ چھ برس سے ہم لوگوں کو تنخواہ نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: یوپی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ جلد ہی بحال ہونے کی امید

رفعت جہاں بتاتی ہیں کہ امیٹھی میں اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے جب ملاقات کی تو انہوں نے برجستہ یہی کہا کہ مذہب کی بنیاد پر اب کوئی بھی اسکیم نہیں چلائی جا رہی ہے سبھی اسکیم بند کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موصوف وزیر کو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ مدارس میں جو ماڈرن ٹیچر کے نام پر تقرری ہوئی ہے اس میں 40 فیصد ٹیچرز ہندو طبقے سے آتے ہیں جب کہ 60 فیصد ٹیچرز مسلم ہیں۔ اس سکیم میں ہندو مسلم کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور سبھی ٹیچرز بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ 2021 میں اس اسکیم کو بند کر دیا گیا ہے جس پر انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو ٹیچرز 40 برس کے 45 برس کے ہو گئے ہیں اب وہ اپنی زندگی کہاں جائیں گے اور کیا پچھلا بقایہ جو ہم لوگوں نے مدرسے میں خدمات انجام دیا ہے اس کو دیا جائے گا یا نہیں دیا جائے گا۔ یہ بھی وزیر موصوف کو بتانا چاہیے۔

مدرسہ ماڈرن ٹیچر مہرالنساء نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی کہانی بتایا کہ پیشے سے وہ اگرچہ ایک ٹیچر ہیں لیکن اب وہ کپڑوں کی سلائی کڑاہی کر کے اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بیٹی ٹیوشن پڑھاتی ہے اور ہم کپڑے سلتے ہیں۔ جب بھی خالی وقت ملتا ہے تو ہم اس پر توجہ دے کر کے پیسے کمالیتے ہیں اور گھر کا خرچ چلاتے ہیں وہ بتاتی ہیں کہ یہ سبھی ٹیچرز کی کہانی ہے جو موجودہ دور میں شدید پریشان ہیں۔

UP Madaras Mordern Teachers

لکھنؤ: اترپردیش میں حکومت کی جانب سے لانچ کردہ مارڈن ٹیچر اسکیم کا مقصد تھا کہ مدارس میں دینی علوم کے ساتھ جدید علوم بھی بچوں کو میسر ہو۔ لیکن موجودہ بی جے پی کی حکومت نے گزشتہ پانچ برس زائد مدرسے میں تعلیم دے رہے ماڈرن ٹیچروں کو تنخواہ نہیں دی ہے۔ جس کی وجہ سے یوپی میں 21546 ٹیچرس کسمپرسی کے شکار ہیں۔

اتر پردیش کے 7442 مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ مدارس میں 21546 ماڈرن ٹیچر تعلیم دے رہے ہیں جن کو 40 فیصد تنخواہ ریاستی حکومت دیتی ہے جب کہ 60 فیصد تنخواہ مرکزی حکومت دیتی ہے لیکن گزشتہ تقریبا 6 برس سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ ٹیچرس ای رکشہ چلانے پر مجبور ہیں تو کوئی ٹیوشن پڑھا کر کے روز مرہ کی زندگی گزار رہا ہے، تو کوئی بنکاری اور کئی سائیکل کے پنچر تک بنا رہے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت نے مدرسہ ماڈرن ٹیچر سے بات چیت کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ گزشتہ تقریبا 6 برس سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کو کن کن مسائل کا سامنا ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے مدرسہ ماڈرن ٹیچر رفعت جہاں بتاتی ہیں کہ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ریاست کے 21 ہزار ٹیچروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض ایسے ٹیچر ہیں جن کو علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور وہ انتقال کر گئے۔ کئی ایسے ٹیچر ہیں جو ہارٹ اٹیک جیسی بیماریوں سے بھی دو چار ہیں۔ جب کہ دیگر ٹیچرز مزدوری کر پرچون کی دکان چلا کر کے یا دیگر ذرائع سے محنت و مشقت کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تنخواہ کے حوالے سے ہم نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے بھی بات چیت کی۔ مرکزی اقلیتی وزیر اسمرتی ایرانی سے بھی بات چیت کی اور ریاستی کابینہ وزیر دھرم پال سنگھ سے بھی بات چیت کی۔ سبھی نے یقین دہانی کرائی کی جلد ہی تنخواہ ریلیز کر دی جائے گی لیکن کوئی بھی کاروائی نہیں دکھ رہی ہے۔ رفعت جہاں سے جب یہ سوال کیا کہ آپ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دیتی ہیں بیمار ہوتے ہیں تو علاج کیسے کراتی ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے دیتے اشکبار ہو گئیں انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے ٹیچرز بھی ہیں جو مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ اگر اسلام میں خودکشی حرام نہ ہوتی تو ہم خود کشی کرلیتے۔ اس حد تک ہم لوگ پریشان ہوچکے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ مدرسہ ماڈرن ٹیچر پر یہ الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ ان کی تقرری میں بدعنوانی ہوئی ہے اس کی جانچ مسلسل ہوتی ہے۔ نہ صرف مدرسہ بورڈ اور ضلع اقلیتی فلاح و بہبود کے افسران بلکہ پرائمری ایجوکیشن کے افسران بھی جانچ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی تنخواہ نہیں دی جا رہی ہے۔

مدرسہ ماڈرن ٹیچر کی ندیم خان نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم لوگوں کی زندگی یومیہ مزدور کی زندگی سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔ ایک مزدور ایک دن کام کرتا ہے تو اس سے 500 روپے ملتے ہیں لیکن مدرسہ ماڈرن ٹیچر کو 100 روپیہ بھی نہیں ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوستوں سے قرض لیتے ہیں۔ علاج کے لیے بچوں کی فیس جمع کرتے ہیں۔ اور قرض کا بوجھ اب بہت بڑھ چکا ہے۔ حکومت سے ہمیں یہی امید ہے کہ حکومت ہم لوگوں کی تنخواہ دے گی اور ہماری زندگی آگے بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم کمپیوٹر جانتے ہیں، ٹائپنگ کر کے گزر بسر کرتے ہیں اور کچھ بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتے ہیں لیکن کئی ہمارے ساتھی ایسے ہیں جو دن میں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور خالی وقت میں وہ سائیکل کا پنچر بنا کر اپنا ہاتھ کالا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ افسوسناک لمحہ ہے کہ حکومت جو دعوی کرتی ہے کہ مسلمان بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہوگا اور اسی دعوی کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ہم لوگ مسلسل محنت کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ گزشتہ چھ برس سے ہم لوگوں کو تنخواہ نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: یوپی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ جلد ہی بحال ہونے کی امید

رفعت جہاں بتاتی ہیں کہ امیٹھی میں اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے جب ملاقات کی تو انہوں نے برجستہ یہی کہا کہ مذہب کی بنیاد پر اب کوئی بھی اسکیم نہیں چلائی جا رہی ہے سبھی اسکیم بند کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موصوف وزیر کو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ مدارس میں جو ماڈرن ٹیچر کے نام پر تقرری ہوئی ہے اس میں 40 فیصد ٹیچرز ہندو طبقے سے آتے ہیں جب کہ 60 فیصد ٹیچرز مسلم ہیں۔ اس سکیم میں ہندو مسلم کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور سبھی ٹیچرز بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ 2021 میں اس اسکیم کو بند کر دیا گیا ہے جس پر انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو ٹیچرز 40 برس کے 45 برس کے ہو گئے ہیں اب وہ اپنی زندگی کہاں جائیں گے اور کیا پچھلا بقایہ جو ہم لوگوں نے مدرسے میں خدمات انجام دیا ہے اس کو دیا جائے گا یا نہیں دیا جائے گا۔ یہ بھی وزیر موصوف کو بتانا چاہیے۔

مدرسہ ماڈرن ٹیچر مہرالنساء نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی کہانی بتایا کہ پیشے سے وہ اگرچہ ایک ٹیچر ہیں لیکن اب وہ کپڑوں کی سلائی کڑاہی کر کے اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بیٹی ٹیوشن پڑھاتی ہے اور ہم کپڑے سلتے ہیں۔ جب بھی خالی وقت ملتا ہے تو ہم اس پر توجہ دے کر کے پیسے کمالیتے ہیں اور گھر کا خرچ چلاتے ہیں وہ بتاتی ہیں کہ یہ سبھی ٹیچرز کی کہانی ہے جو موجودہ دور میں شدید پریشان ہیں۔

Last Updated : Oct 5, 2023, 3:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.