اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے تاریخی کلاک ٹاور پر این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہرے میں شامل سماجی کارکن عظمیٰ پروین کو جمعہ کے روز پولیس نے گرفتار کر لیا۔ عظمیٰ پروین نے ایک ویڈیو جاری کرکے یہ اطلاع دی۔
سماجی کارکن نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ پولیس ان کے گھر کے باہر پہرہ دے رہی ہے۔ پولیس اسے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اور انتظامیہ ہر بار ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
دراصل سماجی کارکن عظمیٰ پروین مذہب تبدیلی کے الزام میں گرفتار مولانا کلیم کی رہائی کے مطالبے کے لیے ٹیلے کی مسجد میں احتجاج کرنے والی تھیں۔ جمعرات کو عظمیٰ پروین نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد تاریخی ٹیلے والی مسجد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
وہیں جمعہ کی صبح سے ہی پولیس نے پرانے لکھنؤ میں عظمہ پروین کے گھر پر پہرہ لگا دیا۔ نگرانی کے لیے خواتین پولیس کو بھی گھر کے باہر تعینات کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔ عظمیٰ پروین نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے ان کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جمہوریت کا قتل کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران رضا انصاری کو تعزیتی مجلس میں شرکت سے روکا گیا
واضح رہے کہ مذہب تبدیلی کے الزام میں مولانا کلیم کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد یوپی اے ٹی ایس مسلسل کارروائی کررہی ہے۔ آئی جی، اے ٹی ایس کے مطابق مولانا کلیم صدیقی کیس میں اب تک 15 گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ سرفراز علی جعفری کے پاس مولانا کلیم صدیقی کے کام کو آگے بڑھانے کی اہم ذمہ داری تھی۔ جن کی تازہ ترین گرفتاری یو پی اے ٹی ایس نے کی ہے، اے ٹی ایس نے سرفراز کے ریمانڈ کے لیے عدالت میں درخواست دی ہے۔