علی گڑھ: اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے کہا کہ بانی درسگاہ سرسید احمد خاں کا نقطۂ نظر دوراندیش نتائج پر مبنی تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دوسری قوموں کے شانہ بشانہ اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کریں اور شاید اسی لیے جدید علوم کے حصول کی خاطر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) جیسا عظیم ادارہ قائم کیا جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ ڈاکٹر راحت ابرار نے سر سید کے سیاسی نظریات سے متعلق کہا کہ سرسید کے سیاسی نظریات ابھی مکمل طور پر عوام کے سامنے نہیں آئے اور لوگوں نے بھی ان نظریات سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، سوائے حفیظ ملک اور شان محمد کے جنہوں نے سرسید کے سیاسی نظریات پر کام کیا ہے۔ Dr Rahat Abrar On Sir Syed Ahmad Khan
اس کے علاوہ راحت ابرار نے کہا کہ یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہونے والے یونیورسٹی گزٹ اور ان کی تقریروں سمیت جن لوگوں نے سرسید پر کام کیا ہے ان سے تعاون لے کر سرسید کے سیاسی نظریات کو عملی جامہ پہنانا چاہیے تاکہ عوام سے اوجھل سرسید کے کارنامے منظرعام پر آسکیں اور لوگ اس کارناموں سے بہرور ہوسکیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'سنہ 1857 کے انقلاب کے بعد اگر سرسید نہ ہوتے تو یہ ملک مسلم اسپین بن جاتا، اس لیے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ سرسید کی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کیا تھی اور کیا کیا کام انھوں نے عوام کے لیے کیے ہیں'۔ Dr Rahat Abrar On Sir Syed Ahmad Khan
یہ بھی پڑھیں : سرسید کی تعلیمات کو سمجھ کر مستقبل کی راہ طے کرنے کی ضرورت: ڈاکٹر راحت ابرار
انھو نے کہا کہ سرسید بھارت میں واحد شخص ہیں جن کی کتاب اسباب بغاوت ہند کا ترجمہ کولکاتا سے سنہ 1860 میں کرانےکے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی جس پر ایک طویل بحث ہوئی تھی اور وہیں سے سرسید کا سیاسی قد اور سیاسی نظریات سامنے آتے ہیں۔ راحت ابرار کا دعویٰ کیا کہ 'جیسا دنیا کو یہ معلوم ہے کہ سرسید نے اسباب بغاوت ہند لکھی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے دراصل اس کتاب کا نام 'اسباب سرکشی بھارت کا جواب مضمون' ہے جس کو اسباب بغاوت ہند کہا جارہا ہے۔ مذکورہ تمام واقعات کے پیش نظر انھوں نے مزید کہا کہ 'میرا ذاتی ماننا ہے کہ سرسید نے اس ملک کو مسلم اسپین بننے سے روک لیا'۔ Dr Rahat Abrar On Sir Syed Ahmad Khan