علی گڑھ: شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سرسید تقریبات کا آغاز بزم شہر یار کے تحت کیا گیا. صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے سرسید احمد خاں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ وہ ایسی ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے قوم کو سربلند کیا۔ ان کی زندگی کے ہر گوشے پر الگ سے سیمنار کی ضرورت ہے جو کئے جائیں گے۔ یہ سر سید ڈے کی تقریبات کا آغاز ہے، اس لیے ان کی تحریروں و تقریروں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے تاکہ ان کا پیغام ان کی زبان میں نئی نسل تک پہنچے اور عام ہو۔ Sir Syed day celebrations started under Bizm Shehryar
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) شعبۂ اردو نے یوم سرسید کے موقع پر ایک ادبی جلسہ منعقد کیا جس میں اساتذہ و طلبہ نے اپنی تخلیقات، مضامین اور مقالے پیش کئے۔ صدر جلسہ سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے کہا سر سید کے منتخب مضامین کی ہیش کش پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرسید کے پیغام کو عام کرنے کا یہ طریقہ بہت اچھا اور خوبصورت ہے۔ سرسید کی تحریروں اور ان کی راہوں کو دیکھ کر ہمیں اپنی راہ کا تعین کرنا ہے۔ اس ضمن میں ان کے مضمون خوشامد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرسید نے خوشامد کرنے والوں سے تخاطب کے بجائے خوشامد کروانے والوں کو مخاطب کیا ہے، یہ ان کی بصیرت تھی کہ انہوں نے برائی کی جڑ پر حملہ کیا۔ پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ آج غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سرسید نے ہمیں راہ کیا دکھائی؟ انہوں نے راہ یہ دکھائی کی ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا چاہیے، سرسید نے اپنے زمانے کے تقاضے پورے کیے اور آج ہمارے زمانے کے اپنے تقاضے ہیں سرسید سے روشنی لے کر ہمیں ان تقاضوں کو پورا کرنا ہے. یہی سرسید کا سب سے بڑا اور اہم پیغام ہے۔
پروفیسر قمر الہدی فریدی نے اپنے خطاب میں کہا سر سید نے ایک چراغ روشن کیا تھا جس کی روشنی آج ہمیں روشن کر رہی ہے، انسان کی عظمت کی دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنا اپنے زمانے میں یاد کیاجایے اس سے کہیں زیادہ اگلے زمانوں میں یاد کیا جائے، اور سرسید کو دیکھیے آج بھی وہ کتنی عقیدت و محبت سے یاد کئے جاتے ہیں جو ان کی عظمت کی دلیل ہے کیونکہ انہوں نے ایک راستہ بنایا اور اسے روشن کیا جس سے زندگیاں اور نسلیں منور ہو رہی ہیں۔ پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے سرسید تقریبات کے آغاز و اہتمام پر ڈاکٹر خالد حیدر کو مبارک باد پیش کی اور سر سید کے قوم پر احسانات کا ذکر کیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر امتیاز احمد نے پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے سرسید کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالی، ڈاکٹر معید الرحمن نے اپنا مقالہ سرسید کی تفسیر ایک مطالعہ پیش کیا، انہوں نے کہا سرسید کا یہ موقف تھا کہ قران پاک میں ہر دور کے مسائل کا حل موجود ہے، اسی کو بنیاد بناکر انہوں نے اپنی تفسیر لکھی۔
مزید پڑھیں:Sir Syed Day Function اے ایم یو میں جشن یوم سر سید تقریب کی تیاریاں
شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معید رشیدی نے نظامت کرتے ہوئے سرسید کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کن جانفشانیوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو قائم کیا اور ہندوستان ہی نہیں برصغیر کے مسلمانوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا. انہوں نے کہا سرسید احمد خاں ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے مسلمانوں کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ داؤں پر لگا دیا، ہماری نسلیں ان کے احسانات کا قرض نہیں اتار سکتی ہیں۔ نسیم سید نے سر سید احمد خاں کی حیات و خدمات پر تقریر ،محمد مرشد حسین نے اقبال کی نظم طلبائے علی گڑھ کے نام، محمد اسامہ نے سر سید کا مضمون خوشامد، عفان احمد اور انضمام الحق نے عید کا دن کا مکالمہ اور احتشام الحق نے سرسید کا مضمون کاہلی پیش کیا. جبکہ انضمام الحق نے اقبال کی نظم سید کی لوح تربت، اکرام اعجاز نے سرسید کا نظریہ قومیت پر مضمون پڑھا۔ ریسرچ اسکالر صبا منور نے سر سید کا مضمون عورتوں کے حقوق پیش کیا. حالی نے اپنی کتاب حیات جاوید میں سر سید کے کچھ خواب نقل کیے ہیں جنہیں عفان احمد، محمد عارش اور نسیم نے پیش کیے. محمد فرید نے سرسید کا مضمون ہمارے بعد ہمارا نام رہے گا پڑھا۔