اردو ادیبوں کی تصنیفات میں بھی میرٹھ کی قینچی کا ذکر ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں منھ پھٹ انسان کو میرٹھ کی قینچی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی اور اب بھارتی معیشت کی لڑکھڑاتی کشتی نے میرٹھ کی معروف قینچی صنعت کو غرق کر دیا ہے۔
میرٹھ میں قینچی کے کاروبار کی تاریخ سیکڑوں برس پرانی ہے، جس سے بیشتر مسلم کاریگر وابستہ ہیں۔
گزری باراز سے بلکل متصل سابن گران قینچی والے محلے میں سیکڑوں قینچی کی دکانیں آج بھی موجود ہیں، لیکن کاروبار کے ٹھپ ہونے کی وجہ سے اب بیشتر دکانیں بند ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں قینچی کاریگر دوسرے پیشے کا رخ کررہے ہیں۔
سیزر ایسو سی ایشن کے صدر محمد شریف نے بتایا کہ قینچی کاروبار پر قینچی مینو فیکچرنگ پر گذشتہ تین سال میں زبردست مندی کا اثر پڑا ہے، اب صرف 50 فیصد کاروبار بچاہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں کاریگر اب دوسرے پیشے کا رخ کررہے ہیں۔
قینچی کے کاریگر محمد عمران نے دکانوں کے بند ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت میں چین سے سستی قینچیاں آرہی ہیں، جس پر ٹیکس کی شرح کم ہے، لیکن ملک میں بننے والی قینچیوں پر 30 فیصد جی ایس ٹی ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے، اس وجہ سے کاروبار میں گراوٹ آئی ہے اور بیشتر افراد دکان بند کرکے دوسرے کاروبار میں لگ گئے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مندی کے اس دور میں قینچی صنعت کو اپنا مقام دلانے کے لیے حکومت کیا قدم اٹھاتی ہے۔