ETV Bharat / state

پروفیسر شارب ردولوی نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 19, 2023, 3:36 PM IST

Updated : Oct 19, 2023, 3:48 PM IST

اردو زبان و ادب کے ممتاز نقاد اور شاعر پروفیسر شارب ردولوی کا انتقال گزشتہ روز لکھنو کے اپولو ہسپتال میں ہوا تھا انہیں گزشتہ 11 اکتوبر کو مسلسل بخار انے کی وجہ سے اپولو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں پر جانچ میں انکشاف ہوا کہ پروفیسر شارب ردولوی ڈینگو کا شکار ہیں پروفیسر کے بھانجے عاصم رضا نے بتایا کہ تقریبا تین بار پلیٹ لیٹ چڑھایا گیا جس میں سے دو بار افاقہ ہوا جبکہ تیسری بار طبیعت مستحکم رہی اس کے بعد مسلسل پلیٹ لٹس گرتا چلا گیا اور ریکوری نہیں ہو سکی اور یہی وجہ تھی کہ عمر کے تقاضے ضعف کمزوری نقاہت کی وجہ سے وہ مالک حقیقی کے سے جا ملے۔ Sharib Rudaulvi buried in Lucknow

Etv Bharat
Etv Bharat
پروفیسر شارب ردولوی نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

لکھنو: اردو زبان و ادب کے ممتاز نقاد اور شاعر پروفیسر شارب ردولوی کا انتقال گزشتہ روز لکھنو کے اپولو ہسپتال میں ہوا تھا انہیں گزشتہ 11 اکتوبر کو مسلسل بخار انے کی وجہ سے اپولو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں پر جانچ میں انکشاف ہوا کہ پروفیسر شارب ردولوی ڈینگو کا شکار ہیں پروفیسر کے بھانجے عاصم رضا نے بتایا کہ تقریبا تین بار پلیٹ لیٹ چڑھایا گیا جس میں سے دو بار افاقہ ہوا جبکہ تیسری بار طبیعت مستحکم رہی اس کے بعد مسلسل پلیٹ لٹس گرتا چلا گیا اور ریکوری نہیں ہو سکی اور یہی وجہ تھی کہ عمر کے تقاضے ضعف کمزوری نقاہت کی وجہ سے وہ مالک حقیقی کے سے جا ملے۔

لکھنو کے عباس باغ قبرستان میں گزشتہ شب انہیں سپرد خاک کیا گیا سپرد خاک سے قبل ان کی نماز جنازہ عباس باغ قبرستان کے امام ماڑے میں ادا کی گئی جبکہ وہیں پر ایک مختصر مجلس کا بھی اہتمام کیا گیا جس سے مولانا سید منظر صادق نے پڑھی اس موقع پر لکھنو کی سرکردہ شخصیات خاص طور سے ڈاکٹر عمار رضوی ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی سمیت شہر کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی اور تعزیت پیش کیا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے بھانجے عاصم رضا نے بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے پروفیسر شارب ردولوی کے ساتھ ساتھ رہا اور ان کو قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا اردو زبان کے حوالے سے جب بھی کوئی فون کرتا تھا یا کچھ جاننا چاہتا تھا تو پروفیسر کا رویہ اتنا خوش کن تھا کہ شاید ہی کہیں پر ملے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ وہ طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے شفقت سے پیش اتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیز میں اج جو پروفیسرز ہیں یا شعبے کے صدر ہیں ان میں سے بیشتر شارب ردولوی کے شاگرد ہیں انہوں نے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی اور ان کے شاگردوں کا رشتہ نہ صرف استاد اور شاگرد کا ہوتا تھا بلکہ ایک گھریلو تعلقات میں تبدیل ہوتا تھا جیسے ایک باپ اور بیٹے کے مابین رشتہ ہوتا ہے اسی طریقے سے پروفیسر اپنے شاگردوں سے پیش اتے تھے اور ان کے شاگرد بھی انتہائی الفت و محبت کا مظاہرہ کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی دور میں پروفیسرشارب ایک بہترین شاعر تھے لیکن ان کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت نے شاعری سے تنقید نگاری کی جانب توجہ دلائی اور اسی میدان میں زبردست مقبولیت حاصل کی وہ بتاتے ہیں کہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ پروفیسر شاری مشاعروں میں شرکت کرتے تھے رات بھر جاگتے تھے اور دن میں سوتے تھے جو ان کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت کو ناگوار گزرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ تنقید نگاری کی جانب انہوں نے توجہ دلائی اور اس میں پروفیسرشارب نے خاص مقام حاصل کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے حیات ہی میں اپنی بیشتر کتابیں اردو اکیڈمی کو ہدیہ کے طور پر دے دیئے تھے اور اب بھی وہ ایک اکٹھر بنا کر گئے ہیں اور اس پر مہر لگا کر گئے ہیں کہ یہ کتاب لائبریری کو دے دی جائے، پڑھنے پڑھانے سے اس قدر دلچسپی تھی کہ انہوں نے اپنے گھر ہی کو اسکول بنا دیا تھا اور اس کے کچھ برس بعد انہوں نے لکھنو کے کیشو نگر میں اپنی بیٹی کے نام سے شعا انٹر کالج کھولا جس کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ پیسہ کمایا جائے بلکہ ان کا یہی مقصد تھا کہ قوم کے مابین تعلیم کو عام کیا جائے تعلیم سے اس قدر دلچسپی اور لگاؤ کی اپنے گھر کو ہی اسکول بنا دیا تھا جو اج بھی اسکول کی شکل میں ہی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس گھر کو اگر وہ چاہتے تو ایک عالی شان بنگلے اور کوٹھی میں تبدیل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے گھر کو اسکول کی صورت میں زیادہ پسند کیا اور یہی وجہ رہی کہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی ان کے پاس اتا تھا اور اردو زبان و ادب کے حوالے سے تعلیم حاصل کرتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی سے ضرور سبکدوش ہو گئے تھے لیکن اخری دم تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے چاہنے والے اور اردو کے طلبہ ہمیشہ ان سے فائدہ حاصل کرتے رہے۔ پروفیسر شارب ردولوی کا جانا اردو ادب کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے معروف صحافی اور ردولوی کے رہنے والے قاسم نے بتایا کہ پروفیسر شارب ردولوی کا اصل نام مسیب تھا جن کو ہم لوگ اکثر مسیب چچا کہتے تھے لکھنو میں مقیم ہونے کے بعد ردولی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ رودولی کو شامل کیا اور ردولی میں ان کا ایک خاص مقام تھا جہاں کے ادباء شعراء دانشور ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پروفیسر شارب بحیثیت شاعر بحیثیت تنقید نگار اور بحیثیت صحافی اور بحیثیت استاد نمایاں خدمات انجام دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Telangana Girl Gang Raped in Lucknow لکھنؤ میں تلنگانہ کی لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی، تین ملزمین گرفتار


ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اسد عباس بتایا کہ پروفیسر شاعری ردولوی مرثیہ نگار وہ مرثیہ فہمی کے اس قدر ماہر تھے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ ایک ہفتہ بھی گزار لیتا تو شعر فہمی کا مادہ اس قدر پروان چڑھ جاتا تھا کہ مشکل سے مشکل اشعار سمجھنے کا مادہ پیدا ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تنقید نگاری میں اگر کوئی شارب ردولوی کو بغیر پڑھے تنقید نگاری کرتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ نامکمل ہوگا موجودہ عہد کے سب سے بڑے نقاد پروفیسر شارب ب ردولوی تھے جو اج ہم لوگوں کے بیچ میں نہیں ہیں اور ان کے نہ رہنے کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ لکھنؤ اردو زبان و ادب کا ہمیشہ سے گہوارہ رہا ہے اور اس سرزمین پر پروفیسر شارب ردولوی جیسے شخصیات نے اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پروفیسر شارب ردولوی نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک

لکھنو: اردو زبان و ادب کے ممتاز نقاد اور شاعر پروفیسر شارب ردولوی کا انتقال گزشتہ روز لکھنو کے اپولو ہسپتال میں ہوا تھا انہیں گزشتہ 11 اکتوبر کو مسلسل بخار انے کی وجہ سے اپولو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں پر جانچ میں انکشاف ہوا کہ پروفیسر شارب ردولوی ڈینگو کا شکار ہیں پروفیسر کے بھانجے عاصم رضا نے بتایا کہ تقریبا تین بار پلیٹ لیٹ چڑھایا گیا جس میں سے دو بار افاقہ ہوا جبکہ تیسری بار طبیعت مستحکم رہی اس کے بعد مسلسل پلیٹ لٹس گرتا چلا گیا اور ریکوری نہیں ہو سکی اور یہی وجہ تھی کہ عمر کے تقاضے ضعف کمزوری نقاہت کی وجہ سے وہ مالک حقیقی کے سے جا ملے۔

لکھنو کے عباس باغ قبرستان میں گزشتہ شب انہیں سپرد خاک کیا گیا سپرد خاک سے قبل ان کی نماز جنازہ عباس باغ قبرستان کے امام ماڑے میں ادا کی گئی جبکہ وہیں پر ایک مختصر مجلس کا بھی اہتمام کیا گیا جس سے مولانا سید منظر صادق نے پڑھی اس موقع پر لکھنو کی سرکردہ شخصیات خاص طور سے ڈاکٹر عمار رضوی ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی سمیت شہر کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی اور تعزیت پیش کیا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے بھانجے عاصم رضا نے بتایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے پروفیسر شارب ردولوی کے ساتھ ساتھ رہا اور ان کو قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا اردو زبان کے حوالے سے جب بھی کوئی فون کرتا تھا یا کچھ جاننا چاہتا تھا تو پروفیسر کا رویہ اتنا خوش کن تھا کہ شاید ہی کہیں پر ملے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ وہ طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے شفقت سے پیش اتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیز میں اج جو پروفیسرز ہیں یا شعبے کے صدر ہیں ان میں سے بیشتر شارب ردولوی کے شاگرد ہیں انہوں نے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی اور ان کے شاگردوں کا رشتہ نہ صرف استاد اور شاگرد کا ہوتا تھا بلکہ ایک گھریلو تعلقات میں تبدیل ہوتا تھا جیسے ایک باپ اور بیٹے کے مابین رشتہ ہوتا ہے اسی طریقے سے پروفیسر اپنے شاگردوں سے پیش اتے تھے اور ان کے شاگرد بھی انتہائی الفت و محبت کا مظاہرہ کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی دور میں پروفیسرشارب ایک بہترین شاعر تھے لیکن ان کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت نے شاعری سے تنقید نگاری کی جانب توجہ دلائی اور اسی میدان میں زبردست مقبولیت حاصل کی وہ بتاتے ہیں کہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ پروفیسر شاری مشاعروں میں شرکت کرتے تھے رات بھر جاگتے تھے اور دن میں سوتے تھے جو ان کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت کو ناگوار گزرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ تنقید نگاری کی جانب انہوں نے توجہ دلائی اور اس میں پروفیسرشارب نے خاص مقام حاصل کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنے حیات ہی میں اپنی بیشتر کتابیں اردو اکیڈمی کو ہدیہ کے طور پر دے دیئے تھے اور اب بھی وہ ایک اکٹھر بنا کر گئے ہیں اور اس پر مہر لگا کر گئے ہیں کہ یہ کتاب لائبریری کو دے دی جائے، پڑھنے پڑھانے سے اس قدر دلچسپی تھی کہ انہوں نے اپنے گھر ہی کو اسکول بنا دیا تھا اور اس کے کچھ برس بعد انہوں نے لکھنو کے کیشو نگر میں اپنی بیٹی کے نام سے شعا انٹر کالج کھولا جس کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ پیسہ کمایا جائے بلکہ ان کا یہی مقصد تھا کہ قوم کے مابین تعلیم کو عام کیا جائے تعلیم سے اس قدر دلچسپی اور لگاؤ کی اپنے گھر کو ہی اسکول بنا دیا تھا جو اج بھی اسکول کی شکل میں ہی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس گھر کو اگر وہ چاہتے تو ایک عالی شان بنگلے اور کوٹھی میں تبدیل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے گھر کو اسکول کی صورت میں زیادہ پسند کیا اور یہی وجہ رہی کہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی ان کے پاس اتا تھا اور اردو زبان و ادب کے حوالے سے تعلیم حاصل کرتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی سے ضرور سبکدوش ہو گئے تھے لیکن اخری دم تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے چاہنے والے اور اردو کے طلبہ ہمیشہ ان سے فائدہ حاصل کرتے رہے۔ پروفیسر شارب ردولوی کا جانا اردو ادب کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے معروف صحافی اور ردولوی کے رہنے والے قاسم نے بتایا کہ پروفیسر شارب ردولوی کا اصل نام مسیب تھا جن کو ہم لوگ اکثر مسیب چچا کہتے تھے لکھنو میں مقیم ہونے کے بعد ردولی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ رودولی کو شامل کیا اور ردولی میں ان کا ایک خاص مقام تھا جہاں کے ادباء شعراء دانشور ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پروفیسر شارب بحیثیت شاعر بحیثیت تنقید نگار اور بحیثیت صحافی اور بحیثیت استاد نمایاں خدمات انجام دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Telangana Girl Gang Raped in Lucknow لکھنؤ میں تلنگانہ کی لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی، تین ملزمین گرفتار


ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اسد عباس بتایا کہ پروفیسر شاعری ردولوی مرثیہ نگار وہ مرثیہ فہمی کے اس قدر ماہر تھے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ ایک ہفتہ بھی گزار لیتا تو شعر فہمی کا مادہ اس قدر پروان چڑھ جاتا تھا کہ مشکل سے مشکل اشعار سمجھنے کا مادہ پیدا ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تنقید نگاری میں اگر کوئی شارب ردولوی کو بغیر پڑھے تنقید نگاری کرتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ نامکمل ہوگا موجودہ عہد کے سب سے بڑے نقاد پروفیسر شارب ب ردولوی تھے جو اج ہم لوگوں کے بیچ میں نہیں ہیں اور ان کے نہ رہنے کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ لکھنؤ اردو زبان و ادب کا ہمیشہ سے گہوارہ رہا ہے اور اس سرزمین پر پروفیسر شارب ردولوی جیسے شخصیات نے اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

Last Updated : Oct 19, 2023, 3:48 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.