سر شاہ محمد سلیمان ضلع جونپور میں مشہور و معروف وکیل محمد عثمان فاروقی فدائی کے گھرانے میں 3 فروری 1886 کو پیدا ہوئے تھے۔ سر شاہ محمد سلیمان کا نسب سلطان الاولیاء حضرت مخدوم عیسیٰ تاج سے ملتا ہے جو عہد شرقیہ میں وارد جونپور ہوئے تھے جن کی سلطان ابراہیم شاہ شرقی بڑی تعظیم و تکریم کرتا تھا۔
سر شاہ محمد سلیمان نے بنیادی تعلیم گھر پر مولوی اسماعیل سے حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ قرآنیہ جامع الشرق جونپور سے مذہبی تعلیم حاصل کی، انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مشن اسکول (راج ڈگری کالج) میں داخلہ لیا آپ کی ذہانت و قابلیت کو دیکھ کر حکومت وقت نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان بھیج دیا جہاں آپ نے 1906 میں کیمبرج یونیورسٹی، ڈبلن یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں اور اپنے اساتذہ کو قابلیت کی بناء پر بے حد متاثر کیا اور 1911 میں بیرسٹر بن کر ملک بھارت تشریف لائے۔
لوگوں نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور ان کی آمد پر مشہور و معروف شاعر حفیظ جونپوری نے شعری انداز میں خوشی کا اظہار کیا تھا۔
سر شاہ سلیمان کے نانا حافظ عابد حسین نے اپنی تمام جائیداد و مکان، مسکونہ مسجد و مدرسہ ملا محمود پر وقف کر دیا تھا۔ آپ کا مکان اب بھی موجود ہے، جس میں اس وقت ساجدہ گرلس انٹر کالج قائم ہے۔
سر شاہ سلیمان کا خاندانی پیشہ وکالت تھا۔ سر شاہ محمد سلیمان نے بھی اپنے خاندانی پیشہ کی طرف رجوع کیا اور 1914 میں الہ آباد ہائی کورٹ سے وکالت شروع کی۔
حکومت انگلشیہ نے آپ کی قابلیت و صلاحیت کے مد نظر 1921 میں الہ آباد ہائی کورٹ کا جج نامزد کردیا۔ 16 مارچ 1932 کو حکومت نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ عطا کیا۔ اس وقت سر شاہ محمد سلیمان کی عمر 34 سال تھی 1937 میں فیڈرل کورٹ کا بھی آپ کو جج نامزد کیا گیا۔ سرشاہ سلیمان کو انگریزوں نے 1929 میں وکالت کی قابلیت و صلاحیت کو مدنظر سر کا خطاب دیا تھا۔
سر شاہ محمد سلیمان نے پروفیسر آئینسٹائن کے نظریہ اضافیت Theory of Relativity کو غلط قرار دے دیا تھا اور اس کی تردید میں ایک آرٹیکل بھی شائع کیا تھا جس سے پورے عالم میں ہلچل مچ گئی تھی۔
1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے سر شاہ محمد سلیمان کو اعزازی ڈگری سے بھی نوازا تھا۔ چیف جسٹس کے عہدہ سے سبکدوشی کے بعد آپ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے دو مرتبہ وائس چانسلر مقرر کئے گئے۔ 9 فروری 1929 تا 9 اکتوبر 1928, 30 اپریل 1938 تا 12 مارچ 1941 تا حیات شاہ محمد سلیمان نے یونیورسٹی کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔
سر شاہ محمد سلیمان کے نام سے منسوب 'سلیمان ہال' ان کے کارناموں کا ثبوت دیتا ہے۔
سر شاہ محمد سلیمان مسلمانوں کی تعلیم کو لیکر کافی کوشاں رہے اور تعلیم نسواں کے بھی حامی تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے متعدد تعلیمی کانفرنس کا انعقاد و صدارت فرمائی اور دینی تعلیم سے بھی ان کو خصوصی دلچسپی تھی۔ اردو ادب میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔
سر شاہ محمد سلیمان نے متعدد مشہور شعراء غزلیات ذوق، قصائد ذوق، مثنویات میر کے انتخابات کو تصنیف کیا ہے۔ 55 سال کی عمر میں چند ہفتہ بیمار رہ کر دہلی میں 12 مارچ 1941 کو انتقال کرگئے۔ ان کی تدفین حضرت نظام الدین اولیاء کے قبرستان میں ہوئی۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں تاریخ کے جانکار عرفان جونپوری نے بتایا کہ سر شاہ محمد سلیمان نے بے شمار نمایاں کام کو انجام دیا ہے۔ ان کے انتقال کے پر سید سلیمان ندوی نے تعزیتی مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے سر شاہ محمد سلیمان کو ان کی علمی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہندوستان کا وقار اور قوم کا فخر لکھا ہے۔
مزید پڑھیں:
بال پُرسکار یافتہ محمد شاداب کا ایک اور کارنامہ
انہوں نے کہا کہ ہماری یہ نا محرومی ہے کہ جس شخص کے کاموں کا اعتراف پوری دنیا نے کیا ہو وہ شخص ہمارے شہر میں پیدا ہوا۔ اس کے بارے میں عوام و خواص کم علمی کا شکار ہیں چنانچہ یہ اہل جونپور کی ذمےداری ہے کہ ان کے نام پر روڈ تعمیر کرے اور یادگار بنائے تاکہ اتنی بڑی عظیم شخصیت کا نام زندہ رہ سکے۔