اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ میں واقع آل انڈیا کیفی اعظمی اکادمی میں ولایت جعفری 'فن اور شخصیت' پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا، جس کی صدارت پروفیسر شارب ردولوی نے کی۔
اس موقع پر پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ "ولایت جعفری بنیادی طور پر ایک بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔ اسی لیے انہوں نے ڈرامہ کے میدان میں 'لائٹ اینڈ ساؤنڈ' پروگرام میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔"
اپٹا کے رکن راکیش نے ولایت جعفری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'لائٹ اینڈ ساؤنڈ' کی کسی عمارت کی خوبیاں پہلے بھی پیش کی جاتی تھیں لیکن ولایت جعفری پہلے ایسے شخص تھے جنہوں نے 'لائٹ اینڈ ساؤنڈ' کے ذریعے پہلی بار شاندار طریقے سے کرداروں کو پیش کیا۔
سنہ 1969 میں ولایت جعفری نے 'لائٹ اینڈ ساؤنڈ' کے ذریعے جلیاں والا باغ پروگرام دکھایا جو پورے ملک میں بہت مقبول رہا۔
لکھنؤ میں یہ پروگرام ریزیڈنسی میں پیش کیا گیا تھا لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ولایت جعفری بنیادی طور پر ایک بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔
پروفیسر صابرہ حبیب نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ولایت جعفری سے ان کی ملاقات رائے بریلی میں کئی مرتبہ ہوئی ہے وہ ان کے نزدیکی رشتہ دار بھی تھے۔
ان کی شخصیت میں جو بات تھی وہ ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ یہ بات ضرور ہے کہ وہ کم گو تھے لیکن ان کا فن بولتا تھا چاہے بات چیت کا فن ہو، لوگوں کی پذیرائی کا فن ہو، تعریف کرنے کا فن ہو وہ تمام خوبیاں ان میں موجود تھی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران پروفیسر شارب ردولوی نے بتایا کہ ولایت جعفری سے ان کا تعلق سنہ 1953 سے رہا ہے جب وہ لوگ لکھنؤ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ اس دوران دونوں ایک ساتھ ہی رہتے تھے چاہے کھیل کا میدان ہو یا ادبی محفل ہو۔
پروفیسر شارب ردولوی نے کہا کہ ولایت جعفری سے ان کا تعلق کافی پرانا تھا لیکن اتفاق ہے کہ یہ تعلق اتنے عرصے میں کبھی نہیں ٹوٹا اور آخری وقت تک باقی رہا۔
ولایت جعفری بنیادی طور پر ایک بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔ اسی لیے انہوں نے ڈرامہ کے میدان میں 'لائٹ اینڈ ساؤنڈ' پروگرام میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔
رواں برس پانچ اکتوبر کو 85 برس کی عمر میں ولایت جعفری کا انتقال ہوگیا۔