کورونا وائرس نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ہے چاہے وہ سیاسی ہو، سماجی ہو یا پھر مذہبی۔ آج چہلم ہے لیکن نوابی شہر لکھنؤ کی سڑکوں پر خاموشی طاری ہے کیونکہ انتظامیہ نے کووڈ پروٹوکول کے تحت بہت زیادہ لوگوں کو زیارت کی اجازت نہیں دی۔
اس سے پہلے محرم الحرام میں پہلی محرم سے لے کر یوم عاشورہ تک انتظامیہ نے مجلس، ماتم اور تعزیہ داری کی اجازت نہیں دی تھی۔
معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے گھر میں تعزیہ رکھ کر عزاداری کی اجازت کے لیے غفران مآب امام باڑہ میں دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران عقیدت مند نے بتایا کہ ہماری زندگی میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ چہلم میں امام بارگاہ خالی ہیں اور سڑکوں پر خاموشی طاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وبائی امراض ہے، جس وجہ سے حکومت نے کووڈ پروٹوکول کے تحت ایسا کیا ہے۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم گائیڈلائین پر عمل کرتے ہوئے سماجی دوری کے ساتھ زیارت کریں۔
قابل ذکر ہے کہ انتظامیہ نے جگہ جگہ راستہ بند کروا دیا تاکہ لوگ امام بارگاہ تک نہ پہنچ سکیں۔ اس کے لیے پولیس نے سخت حفاظتی بندوبست بھی کیے تھے۔ شاید یہی وجہ رہی ہے کہ عقیدت مندوں کو لگا کہ انتظامیہ ہمیں زیارت کرنے سے روک رہی ہے۔ نتیجتا تالکٹورہ کربلا کے پاس کثیر تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور نعرہ حیدری کے ساتھ امام بارگاہ کے پچھلے گیٹ کو گرا کر اندر داخل ہوئے۔ اس دوران وہاں بڑی تعداد میں پولیس فورس تھی۔ حالانکہ اس کے بعد کسی طرح کی بدامنی سامنے نہیں آئی۔
بات چیت کے دوران ایک عقیدت مند نے کہا کہ اگر ضلع انتظامیہ بہتر اقدامات اٹھائے ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ جو لوگ زیارت کے وجہ سے کربلا آئے تھے، انہیں ایک دروازے سے داخل کرنا چاہیے تھا اور دوسرے دروازے سے انہیں باہر جانے کا راستہ دیا جاتا لیکن انتظامیہ نے یہ غلطی کی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ کربلا کے باہر جمع ہوئے اور یہ حادثہ پیش آیا حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔