روئے زمین پر جابجا پھیلے درخت بنی نوع انسانی کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ درخت نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی مُمّد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
درخت سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ اور زمین کے کٹاؤ کو روکنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبہ کا 25 فیصد حصہ پر جنگلات کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
دیگر ممالک کے مقابلے عالمی تناسب کے مطابق بھارت میں صرف 35 ارب درخت ہیں یعنی ایک آدمی کے لیے صرف 28 درخت ہیں۔ قابل ذکر یہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 15 آعشاریہ 3 ارب درخت کھو رہے ہیں۔ یعنی فی آدمی کے حساب سے دو درخت سے بھی زیادہ کا نقصان ہر سال ہو رہا ہے۔ دوسری جانب تصویر یہ ہے کہ ہم بہت کم تعداد میں پودے لگائے جا رہے ہیں۔
نیچر جرنل کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پانچ ارب درخت ہر سال لگائے جا رہے ہیں جبکہ ہم ہر سال 10 ارب درختوں کا نقصان اٹھا رہے ہیں۔
بھلے ہی حکومتیں ماحولیات کے تحفظ کے لیے نئے نئے منصوبے لاتی ہیں مگر اکثر دیکھا جا رہا ہے کہ کروڑوں درخت لگانے کے بعد حکومتیں ان کی دیکھ ریکھ کرنا بھول جاتی ہیں۔
ریاستی سطح پر شجرکاری مہم کے دوران لاکھوں درخت لگائے گئے جو ایک اچھا اور حوصلہ کن قدم ہے لیکن وہیں اترپردیش کے رامپور میں کلکٹریٹ کی سرکاری زمین سے جس طرح سے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اس کی کوئی بھی شخص ستائش نہیں کر سکتا۔ اس سے شجرکاری مہم کو تقویت ملنے کے بجائے عام آدمی تک مہم کا منفی پیغام ہی جا رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو فوری اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رامپور میں واقع مدرسہ فیض القرآن کے مہتمم رحمت یار خاں، جو ماحولیاتی تحفظ کے لئے اپنی سطح پر کوشش کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کا اہم مشغلہ درختوں کو لگانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے طلباء کو بھی زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت کی شجرکاری مہم ایک خوش آئین قدم ہے اور اسے مزید بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔
بہر حال شجرکاری ایک احسن قدم ہے تاہم اس کے مکمل فوائد صرف اسی صورت میں حاصل کیے جا سکتے ہیں جب یہ تمام پودے صحت مندانہ انداز میں پروان چڑھیں یوں کہہ سکتے ہیں کہ درخت لگانا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی حفاظت بھی ضروری ہے اور ساتھ ہی ہم یہاں یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ پودے لگانا ہی اہم نہیں ہے بلکہ ان کو تناور درخت بننے کے لیے بھی اپنا اپنا رول ادا کرنا ضروری ہے۔