مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گذشتہ دنوں دہلی میں منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ویر ساورکر نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے کہنے پر انگریزوں سے معافی مانگی تھی اور اس کو بڑھا چڑھا کر غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔' اس بیان پر جہاں حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں نے سخت اعتراض کیا، وہیں تاریخ کے ماہرین و مورخین نے بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اسے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قرار دیا۔
اس ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سابق پروفیسر مؤرخ شیرین موسوی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ساورکر نے گاندھی جی کے کہنے پر معافی مانگی تھی تو وہ حقائق اور تاریخ کے خلاف ہے، کیونکہ جس وقت ساورکر نے انگریزوں کو اپنا معافی نامہ بھیجا تھا، اس وقت گاندھی جی بھارت میں نہیں تھے۔ لہذا یہ بیان بے بنیاد ہے۔ ساورکر کا معافی نامہ آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'سیاسی لوگ سیاسی میدان میں طبع آزمائی کریں زیادہ بہتر ہوگا بغیر حقائق کو جانے ہوئے کسی طرح کا بیان دینا حماقت ہے۔ یہ تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں بلکہ ملک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔'
موجودہ حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ 'اس حکومت کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ تاریخ کے ساتھ رد و بدل کیا جائے اور من مرضی کی تاریخ گڑھ دی جائے جو سراسر غلط ہے۔'
انہوں نے این سی ای آر ٹی کے نئے نصاب تعلیم پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس نصاب میں تاریخ کی جو کتاب شامل کی گئی ہے اس میں اکبر کے دور حکومت کا ذکر ہی نہیں ہے۔ یعنی 1556 سے 1605 تک بھارت کی تاریخ بالکل خالی رہی، کچھ ہوا ہی نہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ نہ صرف تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے بلکہ ملک کے ساتھ ساتھ نا انصافی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ جو کتابیں آنے والی نسل پڑھے گی اور وہ اصل تاریخ اور حقائق سے آگاہ نہیں ہوگی تو پھر کیسے ہم بھارت کی تعمیر و ترقی کا تصور کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:'سماجوادی پارٹی کے اقتدار میں آنے پر ہر طبقے کی حصہ داری یقینی'
انہوں نے مزید کہا کہ 'موجودہ وقت میں تاریخ کی کتابیں جن حضرات سے لکھوائی جا رہی ہیں، ان کا تاریخ کے میدان میں میں کوئی مقام نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ کتابیں لکھ رہے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل جنھوں نے تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں پانچویں چھٹی یا نویں جماعت کے لیے ان کا بین الاقوامی سطح پر نمایاں کام ہے اور تاریخ کے حوالے سے وہ سند کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ لہذا ان کی کتابیں این سی ای آر ٹی سے ہٹا کر ایک ایسے شخص سے تاریخ لکھوانا جن کو نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی کوئی خاص کام ہے، ایسے شخص کے کام کا معیار کیا ہوگا۔؟'
انہوں نے کہا کہ 'مورخین موجودہ حالات کو دیکھ کر سخت مایوس ہیں اور تنقید کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے ہیں۔ لہذا ہم لوگ اپنی انفرادی کوشش سے جہاں ہوسکتا ہے کتابیں شائع کرتے ہیں، انٹرنیٹ یا دیگر سماجی سائٹس پر لکھ رہے ہیں تاکہ آنے والی نسل کو یہ معلوم ہو کہ بھارت کی تاریخ کیا تھی اور اب کیا بتایا جا رہا ہے۔'