اس بار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین AIMIM Contest in Uttar pradesh Assemly Election نے بھی یوپی میں کافی زور لگایا تھا، تاہم اسد الدین اویسی کی پارٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
اے آئی ایم آئی ایم، جو 2017 میں میں کھاتا کھولنے میں ناکام رہی تھی، کو اس الیکشن میں بھی خالی ہاتھ رہنا پڑا۔ 100 سیٹوں پر الیکشن لڑنے والی پارٹی کے اکثر امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو چکی ہے۔
اسد الدین اویسی کی پارٹی کو محض 0.45 فیصد ووٹ ملے۔
اویسی نے یوپی میں اپنے امیدواروں کو جتانے کے لیے سخت محنت کی تھی۔ درجنوں ریلیاں نکال کر انہوں نے ایس پی، بی ایس پی اور بی جے پی کو نشانہ بنایا۔
اس دوران انتخابی مہم کے بعد میرٹھ سے دہلی واپس آتے ہوئے اویسی پر جان لیوا حملہ بھی کیا گیا۔
اسد الدین اویسی نے انتخابی ریلیوں میں سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس جیسی پارٹیوں پر مسلمانوں کے ووٹ لے کر انہیں پسماندہ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے اقلیتوں سے کہا تھا کہ وہ اے آئی ایم آئی ایم کو موقع دیں لیکن ان کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ اے آئی ایم آئی ایم نے بابو سنگھ کشواہا کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا جسے بھاگیداری پریورتن مورچہ کا نام دیا گیا تھا۔
یوں دیکھا جائے تو 0.45 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی اے آئی ایم آئی ایم کو اتر پردیش کے مسلمانوں نے تقریباً مسترد کر دیا اور اسے ایک بار پھر سے مایوسی کا سامنا کر پڑا۔
حالانکہ ایم آئی ایم نے بہار اسمبلی انتخابات کے دوران چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں مسلم اکثریتی علاقوں میں پانچ سیٹیں جیتی تھیں اور اسی فارمولے کو اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں استعمال کرتے ہوئے بابو سنگھ کشواہا اور بھارت مکتی مورچہ کے ساتھ اتحاد کیا۔
جن ادھیکاری پارٹی اور بامسیف بھی اس اتحاد میں شامل ہوئے۔ اتحاد کے بعد اسد الدین اویسی نے بہار کی حکمت عملی کی طرح اتر پردیش کی ان نشستوں پر اپنے امیدوار اتارے جہاں مسلم ووٹرز کی اکثریت ہے لیکن مسلم اکثریتی علاقوں نے بھی ایم آئی ایم امیدوار کو خارج کر دیا۔
- انتخابی نتیجہ اے آئی ایم آئی ایم کو بڑا جھٹکا
403 اسمبلی نشستوں والی اتر پردیش ریاست کی 399 سیٹوں کے رجحانات کی بنیاد پرایم آئی ایم کو اس بار آدھے فیصد سے بھی کم ووٹ ملے جو کہ نوٹا پر ڈالے گئے ووٹوں سے بھی کم ہے۔
اسد الدین اویسی، جو اتر پردیش میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کے لیے 2022 کے انتخابی نتائج کسی جھٹکے سے کم نہیں ہیں۔
ان انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم وہیں کھڑی نظر آرہی ہے جہاں وہ 2017 کے انتخابات میں تھی۔
پچھلے اسمبلی انتخابات میں اویسی کی پارٹی نے 38 سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا اور ان میں سے 37 سیٹوں پر اس کے امیدواروں کی ضمانت ہو گئی تھی۔ پارٹی کو کل ووٹوں کا 0.24 فیصد ملا تھا جس میں اس بار معمولی اضافہ ہوا ہے۔
- مسلم ووٹ علاقائی جماعتوں میں تقسیم
سنہ 2017 کے نتائج کے بعد پوسٹ پول سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ریاست میں مسلم ووٹروں کی اکثریت یعنی تقریباً 45 فیصد سماج وادی پارٹی کے ساتھ گئی تھی جب کہ بی ایس پی اور کانگریس کے کھاتے میں 19-19 فیصد ووٹ آئے تھے۔ باقی 17 فیصد ووٹ ایم آئی ایم سمیت دیگر پارٹیوں کے کھاتے میں گئے تھے۔ Review of AIMIM's Failure in UP
- اویسی کا جادو اتر پردیش میں ایک بار پھر ناکام
2011 کی مردم شماری کے مطابق، اتر پردیش کی 20 کروڑ آبادی میں مسلمان تقریباً 20 فیصد ہیں اور اویسی نے انتخابات کے دوران سیاست میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ مسلسل اٹھایا ہے۔
اسد الدین اویسی یوپی میں لگاتار انتخابی مہم چلا رہے تھے تب کئی تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ اتر پردیش میں ایم آئی ایم کے آنے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو نقصان ہوگا اور نتائج کے بعد ایسا ہی کچھ منظر دکھائی دے رہا ہے۔
اتر پردیش کے مسلم ووٹرز اس بار ووٹوں کے بکھرنے کو لے کر کافی محتاط تھے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے ووٹوں کی تقسیم پہلے کے مقابلے بہت کم ہوئی ہے۔ بی ایس پی، کانگریس اور اے آئی ایم آئی ایم کو بہت ہی ووٹ ملے۔
اتر پردیش الیکشن میں اے آئی ایم آئی ایم کی حالت بہت خراب نظر آئی اور اس بار بھی اس کا کھاتا نہیں کھل سکا۔