لکھنؤ میں محرام الحرام کے موقع پر مسلمان بڑی تعداد میں غمِ حسین میں ماتم کرتے ہوئے جلوس نکالتے ہیں، چراغاں کرتے ہیں اور مجالس منعقد کی جاتی ہے۔
وہیں کچھ ایسے بھی حضرت حسین علیہ السلام کو چاہنے والے ہیں، جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔
لیکن پھر بھی ان کے دلوں میں امام حسین کی ایسی محبت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ صدیوں سے ان کے لئے اپنے گھروں میں تعزیہ رکھتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، نوحہ پڑھتے اور مرثیہ گوئی کرتے ہیں۔
اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں سنہ 1880 سے کشنو خلیفہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد میں پہلی مرتبہ اپنے گھر میں تعزیہ لاکر رکھا تھا۔
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور انہوں نے منت مانگی، تب سے لے کر آج تک 140 سال گزر گئے لیکن ان کے گھر میں آج بھی وہی دستور جاری ہے۔
مزید پڑھیں : یوم عاشورہ پر وادی میں سخت بندشیں
ریاستی وزیر محسن رضا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ یہ بھارت کی خصوصیت ہے کہ یہاں پر سبھی مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہریش چندر جیسے لوگ گنگا جمنی تہذیب کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے۔
ہریش چندر دھانک نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ میں كشنو خلیفہ کے پانچویں پیڑھی سے وابستہ ہوں۔ ہم لوگ حضرت امام حسین علیہ السلام کے یاد میں ماتم اور تعزیہ داری کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جس طرح سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ دوریاں بڑھتی جارہی ہیں، وہ کچھ لوگوں کی وجہ سے ہے، جبکہ زیادہ تر لوگ چاہتے ہیں کہ ہم بھائی بھائی بن کر رہیں کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔