ایس پی رامپور کا کہنا ہے کہ ' پولیس نے ملزم کو پکڑنے کے لیے سرچ آپریشن جاری کیا جس کے دوران ملزم نے گولیاں چلائی، پولیس نے بھی جوابی کاروائی کرتے ہوئے گولیاں چلائی جو ملزم کے پاوں میں لگی'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ملزم کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے'۔
پولیس کی اس کاروائی کو کافی سراہا گیا اور انہیں 20 ہزار روپے نقد انعام بھی دیا گیا۔ یہاں تک کہ رامپور کی بار ایسو سی ایشن نے ایک پریس بیان میں ملزم کا مقدمہ نہ لڑنے کی بات بھی کی۔
بار ایسو سی ایشن کے اس فیصلے کی کئی سئنیر وکلاء نے خلاف ورزی کی اور اسے قانون کے خلاف قرار دیا۔
بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر، مصطفیٰ احمد کا کہنا تھا کہ ' بار ایسو سی ایشن اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی ہے کہ ملزم کا مقدمہ نہ لڑیں کیونکہ قانونی فیصلے جزبات میں آکر نہیں لیے جاسکتے ہے'۔
وہیں رامپور کے ایک سینئر وکیل ریحان خان نے بار ایسو سی ایشن کے فیصلہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'عدلیہ میں کسی کے جزبات کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ قانون کی نظر میں جو فریق درست ثابت ہو فیصلہ اسی کے حق میں کیا جاتا ہے'۔
انہوں نے بچی کے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کی بھی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر ملزم کا جرم ثابت ہوجائے تو اسے سخت سے سخت سزا دینی چاہیے'۔
وہی دوسری جانب وکلاء کے زبردست اختلافات کے بعد بیان جاری کرنے والے بار ایسو سی ایشن کے نائب صدر بھرم پال سنگھ نے ابنے بیان کو نجی رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'وہ کسی وکیل پر دباء نہیں دال رہے ہے، یہ ان کا نجی فیصلہ ہے'۔