ETV Bharat / state

دیوبند میں شاہین باغ کی طرز پر مظاہرہ شروع - دیوبند میں شاہین باغ کی طرز پر مظاہرہ شروع

اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے دیوبند علاقہ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ شروع کیا گیا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لیا۔

دیوبند میں شاہین باغ کی طرز پر مظاہرہ شروع
دیوبند میں شاہین باغ کی طرز پر مظاہرہ شروع
author img

By

Published : Jan 27, 2020, 11:19 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 5:05 AM IST

ریاست اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے دیوبند علاقہ میں جاری احتجاج قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارتی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

دیوبند کے بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہیں۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور روزی نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے حکومت نے مجبور کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لیے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کے مشترکہ ورثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طور پر یہ قانون واپس لے۔

فرحانہ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کر رہی ہو۔

انہوں نے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے۔

انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19 لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیر ملکی ہوگئے، جبکہ صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں۔ انہیں بھارتی ڈٹینشن سینٹر میں جا کر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا۔

انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنا رہی ہے جو قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کر رہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف کا تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم بھارتیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر بھارتی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔

انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم بھارتی خواتین آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں۔

خواتین نے کہا کہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے، جنہوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جس کے خلاف ہم آخر تک اپنی آواز بلند کریں گے۔ عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آر سی کے خلاف بنے بینروں و پوسٹروں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی۔ اس موقع پر خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا۔

خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا ہے اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا، ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کاروائی پر سخت غصہ کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طور پر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصوروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔

بتا دیں کہ مظاہرہ کے دوران بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔ خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔

ریاست اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے دیوبند علاقہ میں جاری احتجاج قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارتی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

دیوبند کے بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہیں۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور روزی نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے حکومت نے مجبور کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لیے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ملک کے مشترکہ ورثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طور پر یہ قانون واپس لے۔

فرحانہ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کر رہی ہو۔

انہوں نے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے۔

انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19 لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیر ملکی ہوگئے، جبکہ صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں۔ انہیں بھارتی ڈٹینشن سینٹر میں جا کر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا۔

انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنا رہی ہے جو قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کر رہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف کا تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم بھارتیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر بھارتی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔

انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم بھارتی خواتین آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں۔

خواتین نے کہا کہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے، جنہوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، جس کے خلاف ہم آخر تک اپنی آواز بلند کریں گے۔ عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آر سی کے خلاف بنے بینروں و پوسٹروں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی۔ اس موقع پر خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا۔

خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا ہے اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا، ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کاروائی پر سخت غصہ کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طور پر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصوروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔

بتا دیں کہ مظاہرہ کے دوران بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔ خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔

Intro:(اینکر)

سہارنپور، دیوبند

 آج ایک مرتبہ پھر سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ دیر شام تک جاری رہا جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے حصہ لیا۔ قومی ترانہ سے شروع ہوئے پروگرام میں خواتین نے آئین کو پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔


Body:آج دوپہر بازار سرسٹہ سے جلوس کی شکل میں عیدگاہ میدان میں پہنچی خواتین دیر شام تک نعرے بازی کرتی رہی۔ اس دوران کمیٹی کی صدر آمنہ روشی اور عنبر نمبردار نے کہا کہ سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین سڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے حکومت نے مجبور کردیا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمیں مظلوم کہا جاتا تھا، تین طلاق پر ہمیں معصوم کہنے والے آج دیکھ لیں کہ ہم ملک بھر میں آئین بچانے کے لئے گھروں سے باہر آگئی ہیں۔انہو ں نے کہا کہ حکومت وقت ملک کے مشترکہ ور ثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کے عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طورپر یہ قانون واپس لے۔ فرحانہ، شائستہ اور روزی نمبردار نے کہا کہ ہمیں اچھی حکومت چاہئے، ہمیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو ہمیں ہندو اور مسلمانوں میں تقسیم کررہی ہو۔ انہو ں نے کہا کہ سی اے اے جہاں چار لوگوں کو شہریت دے رہا ہے وہیں ایک کی شہریت کو چھین رہا ہے۔ انہوں نے آسام کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ریاست میں ہی 19لاکھ افراد ایک جھٹکے میں غیرملکی ہوگئے، جب کہ صدیوں سے ان کے آباؤ اجداد یہاں پر رہتے آئے ہیں۔ انہیں ہندوستانی ڈٹینشن سینٹر میں جاکر مرنے کے بجائے پولیس کی گولی سے مرنا منظور ہوگا۔ انہوں نے یوپی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہاکہ یوپی حکومت قوانین کا غلط استعمال کرکے ایک فرقہ کو نشانہ بنارہی ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں غلط قوانین پاس کررہی ہے لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی۔عظمیٰ عثمانی، ڈیزی شاغل اور ہما قریشی نے مرکزی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہم ہندوستانیوں کے کاغذ پورے نہ ہونے پر ہندوستانی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو وزیر اعظم نہیں تسلیم کرتے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے تو انہیں ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم ہندوستانی عورتیں بھی آدھا انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آباؤ اجداد کا خون شامل ہے،جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کرکے اس ملک کو آزادی دلائی لیکن آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری ثابت کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،جس کے خلاف ہم آخرتک اپنی آواز بلند کریں گے۔عیدگاہ میدان میں ترنگے جھنڈوں اور سی اے اے و این آرسی کے خلاف بنے بینر وں وپوسٹر وں کے ساتھ احتجاج گاہ پہنچی خواتین اور لوگوں کا جوش و خوش قابل دید تھا، خواتین نے زبردست طریقہ سے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک یہ احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا،ساتھ ہی خواتین اور طالبات نے جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو اور طلبہ مدارس کے خلاف کی گئی انتظامیہ کی کارروائی پر سخت غصہ کااظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے فوری طورپر یہ مقدمات واپس لینے اور بے قصور وں کو رہا کرنے کامطالبہ کیا،خاص بات یہ ہے اس پروگرام میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی جوش و خروش سے حصہ لیا۔ مظاہرہ کے دوران بڑ ی تعداد میں پولیس فورس تعینات رہی اور خفیہ محکمہ کے افسران بھی پل پل کی خبر اعلیٰ افسران کو دیتے دکھائی دیئے۔خبر لکھے جانے تک خواتین عیدگاہ میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔


Conclusion:بائٹ:  1 ضحی حسین

بائٹ:  2ثنا فاطمہ عثمانی
Last Updated : Feb 28, 2020, 5:05 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.