ریاست اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرے کا آج 47 واں دن ہے لیکن مظاہرہ کر رہی خواتین کے حوصلوں میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔گزشتہ رات پولیس نے مظاہرے پر بیٹھی خواتین کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن مظاہرین کا صاف کہنا تھا کہ ہم یہاں سے کسی بھی قیمت پر نہیں ہٹیں گے کیونکہ یہ ہمارا آئینی حق ہے۔
آج گھنٹہ گھر میں کچھ نوجوانوں نے مظاہرین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیا، جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے انہیں روکا لیکن جب بات نہ بنی تو دونوں کے مابین لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا۔ مظاہرے پر بیٹھی خواتین کی بڑی تعداد نے پولیس چوکی کا گھیراؤ کرکے جم کر نعرے بازی کی کیونکہ وہاں تعینات سپاہی نے خواتین کے ساتھ گالی گلوچ سے بات کیا تھا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران مظاہرین جو 'جھانسی کی رانی' کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے کہا کہ کل رات کو کچھ پولیس والے میرے گھر پہنچے اور انہوں نے مجھے اور میرے شوہر کو حراست میں لے لیا۔ یہاں تک کہ ہمیں چپل جوتے پہنے تک کا موقع نہ دیا گیا۔
خاتون نے کہا کہ ہمیں کچھ دور لے جانے کے بعد پولیس نے مجھے ایک سنسان علاقے میں اتار دیا اور میرے شوہر کو لے کر چلے گئے۔ اس کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ میرا شوہر کہاں ہیں لیکن مجھے اس کی جانکاری بھی کسی پولیس افسر نے نہیں دیا۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔ پولیس ہمیں زبردستی کیوں پریشان کر رہی ہے؟ کیا ہم نے کوئی گناہ کیا ہے؟ دارالحکومت دہلی میں سی اے اے اور این آر سی کی آڑ لے کر جس طرح سے تشدد کیا گیا، وہ ناقابل برداشت ہے۔
سماجی کارکن نے بات چیت کے دوران کہا کہ اس دہلی میں ہوئے تشدد کی تحقیقات کروائی جائے اور جو بھی لوگ متاثرین ہیں، ان کی مالی امداد کی جائے۔
مظاہرین کی پریشانی یہ ہے کہ ایک طرف موسم کی مار ہے تو دوسری جانب پولیس کا ستم۔ لکھنؤ میں آج موسم اچانک خراب ہوگیا ہے، یہاں ہلکی بارش ہو رہی ہے لیکن اس بارش میں بھی مظاہرین بنا شامیانے کے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
اگر گزشتہ کچھ دنوں کی بات کی جائے تو لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں کچھ باہری لوگ آکر نعرے بازی کرکے چلے جاتے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ ایسا جان بوجھ کر کروایا جا رہا ہے تاکہ احتجاج ختم کروایا جا سکے۔