اردو زبان کے معروف محقق و نقاد، ناول نگار اور عصر حاضر کے سب سے بڑے افسانہ نگار شمس الرحمن فاروقی کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔
معروف محقق پروفیسر نسیم احمد نے ان کے انتقال پر اپنے شدید غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'شمش الرحمان فاروقی کا انتقال پورے اردو ادب کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'فاروقی صاحب کے بارے میں اگر کہا جائے کہ وہ مسلسل پڑھتے ہی رہتے تھے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ شمش الرحمان فاروقی نے مرزا غالب کے منتخب اشعار کا شرح لکھا، جس کے لیے کہا گیا کہ فاروقی صاحب غالب شناس ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس کے بعد خدائے سخن میر تقی میرؔ پر شعری شور انگیز چار جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب مرتب کی۔ پھر بھی وہ رکے نہیں بلکہ اس کے بعد بھی مرزا غالب اور میر تقی میر پر تقابلی مضمون لکھنا جاری رکھا جس میں انہوں نے میر تقی میر کو غالب سے بڑا شاعر تسلیم کیا ہے۔'
پروفیسر نسیم احمد نے مرحوم فاروقی صاحب سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'ایک بار کونسل میں ہم نے کتاب شائع کرنے کے لیے بھیجا، جس کے بعد مختلف افراد نے کئی طرح کی شکایتیں شروع کردیں۔ شمش الرحمان فاروقی نے بھی کہا کہ ”کچھ حذف کر کے شائع کراؤ”۔ انہوں نے بتایا کہ کتاب شائع ہونے کے بعد خود فاروقی صاحب نے خوشی کا اظہار کیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ فاروقی صاحب ناراضگی کے باوجود اگر کوئی اردو محقق کے بارے میں پوچھتا تو وہ میرا نام لیتے تھے۔'
یہ بھی پڑھیں: پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال
پروفیسر نسیم نے کہا کہ 'فاروقی صاحب بہت جلد ناراض ہوجاتے تھے لیکن خوش بھی بہت جلد ہوا کرتے تھے۔ بنارس میں متعدد بار آئے اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ بہت یادیں ہیں، بہت باتیں ہیں۔ آج ان کے جانے سے انتہائی درجہ کا صدمہ پہنچا۔ ہم ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔'
پروفیسر نسیم احمد نے کہا کہ اردو دنیا میں دور دور تک شمش الرحمان فاروقی کے قد کا کوئی نظر نہیں آتا ہے انہوں نے اردو زبان و ادب کے لیے بے پایاں خدمات انجام دی ہیں۔