ETV Bharat / state

اے ایم یو کی تاریخ اور اس کا اقلیتی کردار سب سے اہم - علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

Reaction On AMU Minority Status سر سید احمد خان نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے جب انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج 1877 میں قائم کیا تو ان کے خلاف فتوے دئے گئے۔ ان کا قتل کرکے ان کے بنائے گئے کالج کو منہدم کردینے کی بھی بات کہی گئی تھی۔

اے ایم یو کی تاریخ اور اس کا اقلیتی کردار سب سے اہم
اے ایم یو کی تاریخ اور اس کا اقلیتی کردار سب سے اہم
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 17, 2024, 1:19 PM IST

اے ایم یو کی تاریخ اور اس کا اقلیتی کردار سب سے اہم

علی گڑھ:محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے۔اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلائے جانے والا ادارہ ہے۔

اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے یا اس کو ختم کرنے سے متعلق سات ججوں کی بینچ نے سپریم کورٹ میں 9 سے 11 جنوری تک سماعت ہوئی جس کی اگلی سماعت اب 23 جنوری سے شروع ہوگی۔

اے ایم یو شعبہ سیاسیات کے پروفیسر محمد محب الحق نے اے ایم یو کی تاریخ اور اس کے اقلیتی کردار سے متعلق بتایا جو کام راجا رام موہن رائے نے ہندوؤں کے لئے کیا وہی کام سر سید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے کیا تھا محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج قائم کرکے جو 1920 میں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا۔

بانی درسگاہ سر سید احمد خان 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے کیونکہ سر سید سمجھتے تھے اس دور کی مدرسہ تعلیم وقت کے مطابق نہیں ہے اسی لئے انہوں نے علیگڑھ تحریک چلائی اور ملک کے مسلمانوں کو سائنسی اور مغربی تعلیم کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے دروازے دیگر مذاہب کے لئے بھی کھلے رکھے۔

پروفیسر محب الحق نے زور دیتے ہوئے بتایا 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت برطانوی حکومت کی شرط کے مطابق اس وقت مسلمانوں نے جو 30 لاکھ روپے دے کر اے ایم یو کا درجہ حاصل کیا تھا اس کمیونٹی کے کنٹریبوشن کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

اس وقت یونیورسٹی اے ایم یو 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چل رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں نے قائم کیا اور وہیں اس کے منتظم ہیں۔ آرٹیکل 30 (1) میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے لسانی اور مذہبی مائنوریٹیز کو اپنے ادارے قائم کرنا اور اس کو چلانے کا پورا حق حاصل ہے۔

انہوں نے مزید کہا یہ بدقسمتی ہے کہ ایک طرف ملک کے وزیر اعظم سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کے وشواس کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب حکومت اے ایم یو 1981 ایکٹ کے خلاف کورٹ میں حلف نامہ دائر کرتی ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارا نہیں ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حلف نامہ حکومت کے نعرے کے مطابق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اے ایم یو ٹریننگ و پلیسمنٹ نے سات سو طلباء کی ملازمت میں مدد کی

پروفیسر محب الحق نے کہا کہ 2014 کے بعد پوری دنیا میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ملک کی اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے، وہ محفوظ نہیں ہیں اس لئے اسی صورت حال میں حکومت کو چاہیے تھا کہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیے کہ ہندوستان میں ہمیشہ سے ہی تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں اور ہندوستان میں اے ایم یو سمیت دیگر اقلیتی اداروں کو تحفظ حاصل ہے۔

اے ایم یو کی تاریخ اور اس کا اقلیتی کردار سب سے اہم

علی گڑھ:محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کو ملک کے مسلمانوں نے 1920 میں برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ 1920 پارلیمانی ایکٹ کے تحت حاصل کیا تھا جو موجودہ دور میں اپنے 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔ 1981 ایکٹ کے مطابق اے ایم یو ایک اقلیتی ادارا ہے۔اس کے خلاف حکومت نے ایک حلف نامہ کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے بی او اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ حکومت کے فنڈ سے چلائے جانے والا ادارہ ہے۔

اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے یا اس کو ختم کرنے سے متعلق سات ججوں کی بینچ نے سپریم کورٹ میں 9 سے 11 جنوری تک سماعت ہوئی جس کی اگلی سماعت اب 23 جنوری سے شروع ہوگی۔

اے ایم یو شعبہ سیاسیات کے پروفیسر محمد محب الحق نے اے ایم یو کی تاریخ اور اس کے اقلیتی کردار سے متعلق بتایا جو کام راجا رام موہن رائے نے ہندوؤں کے لئے کیا وہی کام سر سید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے کیا تھا محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج قائم کرکے جو 1920 میں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا۔

بانی درسگاہ سر سید احمد خان 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے کیونکہ سر سید سمجھتے تھے اس دور کی مدرسہ تعلیم وقت کے مطابق نہیں ہے اسی لئے انہوں نے علیگڑھ تحریک چلائی اور ملک کے مسلمانوں کو سائنسی اور مغربی تعلیم کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے دروازے دیگر مذاہب کے لئے بھی کھلے رکھے۔

پروفیسر محب الحق نے زور دیتے ہوئے بتایا 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت برطانوی حکومت کی شرط کے مطابق اس وقت مسلمانوں نے جو 30 لاکھ روپے دے کر اے ایم یو کا درجہ حاصل کیا تھا اس کمیونٹی کے کنٹریبوشن کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

اس وقت یونیورسٹی اے ایم یو 1981 ترمیمی ایکٹ کے مطابق چل رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں نے قائم کیا اور وہیں اس کے منتظم ہیں۔ آرٹیکل 30 (1) میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے لسانی اور مذہبی مائنوریٹیز کو اپنے ادارے قائم کرنا اور اس کو چلانے کا پورا حق حاصل ہے۔

انہوں نے مزید کہا یہ بدقسمتی ہے کہ ایک طرف ملک کے وزیر اعظم سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کے وشواس کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب حکومت اے ایم یو 1981 ایکٹ کے خلاف کورٹ میں حلف نامہ دائر کرتی ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارا نہیں ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حلف نامہ حکومت کے نعرے کے مطابق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اے ایم یو ٹریننگ و پلیسمنٹ نے سات سو طلباء کی ملازمت میں مدد کی

پروفیسر محب الحق نے کہا کہ 2014 کے بعد پوری دنیا میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ملک کی اقلیت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے، وہ محفوظ نہیں ہیں اس لئے اسی صورت حال میں حکومت کو چاہیے تھا کہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیے کہ ہندوستان میں ہمیشہ سے ہی تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں اور ہندوستان میں اے ایم یو سمیت دیگر اقلیتی اداروں کو تحفظ حاصل ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.