کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اترپردیش کے للت پور میں گایوں کی موت کے معاملے میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھا ہے۔
پرینکا گاندھی نے لکھا کہ للت پور سے سامنے آئیں گایوں کی لاشوں کی تصویروں کو دیکھ کر میرا دل مضطرب ہو گیا ہے۔ ابھی تفصیلات نہیں ملی ہیں کہ ان گایوں کی موت کن حالات میں ہوئی ہے، لیکن تصویروں سے لگ رہا ہے کہ یہ موتیں چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہی ہوئی ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ دیکھ کر لگتا ہے کہ کئی دنوں کی بھوک اور پیاس سے ھیرے دھیرے یہ تکلیف دہ موتیں واقع ہوئی ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ یہ اس نوعیت کی پہلی تصویر نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ریاست کے مختلف حصوں سے ایسی تصاویر ملتی رہی ہیں۔
ہر بار ان تصویروں پر کچھ دیر کے لیے بحث ہوتی ہے، لیکن ان معصوم جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے لیے ذمہ دار کون ہے؟
وزیر اعلی کو بھیجے خط میں پرینکا گاندھی نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے وقت آپ نے گایوں کے تحفظ اور گوشالائیں بنوانے کی بات کہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے آپ کے اعلانات کے باجود سرکار کی کوششیں مکمل طور پر ناکام رہیں۔
ریاست میں گایوں کی بھلائی کے نام پر گایوں کے ساتھ غلط رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ گوشالائیں کھولی گئیں لیکن سچ یہ ہے کہ وہاں گایوں کو چارہ اور پانی نہیں ملتا بلکہ وہاں صرف بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بدعنوان افسر اور گوشالہ کے منتظم مکمل طور پر بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ پوری ریاست میں ہر دن نہ جانے کتنی گائیں بھوکی پیاسی مر رہی ہیں۔
پرینکا گاندھی نے خط میں لکھا ہے کہ جہاں گوشالہ اس صورتحال میں ہیں وہیں آوارہ جانور بھی بھیانک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ آوارہ جانوروں سے کسان ہلکان ہیں، وہ راتوں کو رات جاگ کر اپنی فصلوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ فصلوں کی حفاظت کے لئے انہیں ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرکے کھیتوں کی حصاربندی کرنی پڑ رہی ہے۔
پرینکا نے خط میں لکھا تھا کہ گاندھی جی گائے کو ہمدردی کی شاعری سمجھتے تھے ، وہ کروڑوں ہندوستانیوں کی ماں ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ گائے کے تحفظ کا مطلب صرف گائے کا تحفظ نہیں ہے بلکہ ان تمام مخلوقات کا تحفظ ہے جو لاچار اور کمزور ہیں۔
پرینکا گاندھی نے مزید لکھا کہ گاندھی جی گایوں کو رحم و ہمدردی کی علامت مانتے تھے۔ یہ کروڑوں ہندوستانیوں کی ماں ہے۔ وہ مانتے تھے کہ گایوں کے تحفظ کا مطلب صرف گایوں کا تحفظ نہیں ہے، بلکہ ان سبھی جانداروں کی حفاظت ہے جو لاچار اور کمزور ہیں۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری نے لکھا کہ چھتیس گڑھ میں کانگریس حکومت نے 'گودھن نیائے یوجنا' نافذ کرکے اس معاملے کو بہت اچھی طرح سے سلجھایا ہے۔ یوپی سرکار ان سے ترغیب حاصل کر سکتی ہے اور ہم سب گائے کے تئیں اپنی خدمت کا جذبہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ہم ایسے خوفناک حالات میں گایوں کو جینے اور مرنے پر مجبور ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اپنے کسانوں کی حقیقی مدد بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ حکومت کی اس اسکیم کے تحت گائے کی افزائش کو فروغ دینے ، کھیتوں میں بہتری لانے ، ماحولیات ، معیشت کو بہتر بنانے ، ندی نالوں کی بحالی ، کھلے میں گھومنے والے جانوروں کی دیکھ بھال ، نامیاتی کھاد بنانے ، وغیرہ کے لئے کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ حکومت کی اس اسکیم کے تحت گائے کی افزائشِ نسل، کھیتی باڑی کو درست کرنے، ماحولیات، معیشت کو بہتر بنانے، ندی نالوں کی بحالی، کھلے میں گھومنے والے جانوروں کی دیکھ بھال، نامیاتی کھاد بنانے وغیرہ کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔
گودھن نیائے یوجنا کے تحت چھتیس گڑھ کی حکومت نے گوبر خریدنے کی شروعات کی ہے۔ ابھی ہر مہینے اوسطاً 15 کروڑ روپئے کا گوبر خریدا جارہا ہے۔
پرینکا گاندھی نے خط میں بتایا کہ چھتیس گڑھ میں گوشالاؤں کے ذریعہ یہ گوبر خرید اسے ورمی کمپوسٹ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ورمی کمپوسٹ کو 8 روپے فی کلو کے حساب سے سرکاری اداروں اور عام صارفین کو فروخت کیا جارہا ہے۔ دھیرے دھیرے گوشالائیں خود کفیل ہو رہی ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ گودھن نیائے یوجنا سے دو فائدے ہو رہے ہیں۔ ایک تو گوبر بیچنے کے لیے لوگ اپنی گایوں کو گھروں پر رکھ کر چارہ کھلا رہے ہیں، دوسرا ایسے جانور جن کے مالک نہیں ہیں، انہیں گوشالاؤں میں رکھا جا رہا ہے۔ 'گودھن نیائے یوجنا' استفادہ کرنے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین ہیں اور بڑی تعداد میں پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے بے روزگار لوگ ہیں۔
مزید پڑھیں:
بھارتی مسلمانوں کے اقلیتی موقف کو ختم کرنے کا مطالبہ
پرینکا نے خط کے آخر میں لکھا تھا کہ آپ گایوں کی حفاظت اور بھلائی چاہتے ہیں، اسی لئے میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں، تاکہ ہماری ریاست میں گایوں کے ساتھ ایسا کوئی ظلم نہ ہو۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان باتوں سے واقف کرانا مذہبی اور اخلاقی بنیاد پر میری ذمہ داری بنتی ہے۔