عمران حسن صدیقی نے کہا کہ اگر اترپردیش میں آبادی پر قابو پانے سے متعلق نیا قانون متعارف کیا جاتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ ایسا انتخابات کے پیش نظر ایک خاص طبقہ کو خوش کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
ایسا مانا جارہا ہے کہ یوگی حکومت بہت جلد آبادی پر قابو پانے سے متعلق نیا قانون بنائے گی جس کے تحت دو سے زائد بچے رکھنے والے والدین کو متعدد سہولیات سے محروم ہونا پڑے گا۔
بی جے پی حکومت ایسے قانون کو مثبت اقدام بتارہی ہے جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں نے اسے ووٹ بینک کی سیاست قرار دیتے ہوئے یوگی حکومت پر عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی سازش کا الزام عائد کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے الامام ویلفیئر اسوسی ایشین کے صدر عمران حسن صدیقی نے کہا کہ چین میں بھی ایک بچہ اور ایک پریوار کا قانون تھا۔ اب اس قانون میں ترمیم کرنا پڑا لہذا یوپی حکومت کو چاہئے کہ ایسا قانون نہ بنائے جس پر عمل کرانا مشکل ہو۔
یہ بھی پڑھیں: الہ آباد ہائی کورٹ نے مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں مسترد کی
انہوں نے کہا کہ جہاں تک سرکاری نوکری یا دیگر سہولیات کا سوال ہے تو وہ آج بھی اقلیتی طبقہ کو نہیں مل رہی ہیں۔ اس کے برعکس اگر حکومت اس بات کا تیقن دے کہ دو بچے رکھنے والے ہر خاندان کو سرکاری نوکری دی جائے گی، تبھی اس قانون کا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سماج میں آج بھی زیادہ بچوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندو مذہب میں آخری رسومات لڑکا ہی ادا کرتا ہے۔ایسے میں آبادی کنٹرول قانون نافذ ہونے کے بعد جس کو پہلی لڑکی ہوگی ایسے لوگ لڑکے کی خواہش میں پیٹ میں ہی لڑکیوں کو ہلاک کردیں گے۔
عمران حسن صدیقی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ دانشوران سے اس معاملے میں بات چیت کرے اور اس کا مسودہ تیار کرے جس میں سبھی کی رضامندی شامل ہو تاکہ مستقبل میں اس قانون کے منفی اثرات مرتب نہ ہوسکے جس طرح سے چینی حکومت نے قانون میں ترمیم کیا ہے کیونکہ وہاں پر نوجوانوں کی آبادی بہت کم ہوگئی تھی اور اس کا اثر ملک کی معیشت پر پڑرہا تھا، لہذا ایسا ہی ہمارے ملک میں بھی ہوسکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ریاستی قانون کمیشن کے چیئرمین جسٹس اے این متل کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس کو روکنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد ریاستوں نے اس سمت میں اقدامات کیے ہیں۔ اگر آبادی پر قابو نہیں پایا گیا تو بے روزگاری، غریبی کے علاوہ دیگر مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آبادی کنٹرول کے حوالے سے آسام، راجستھان اور مدھیہ پردیس میں نافذ قانون کا ریاست میں بھی اطلاق کا مطالعہ شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اترپردیش کی آبادی 20 کروڑ کے قریب تھی اور اس وقت اندازہ کے مطابق ریاست کی آبادی تقریبا 24 کروڑ ہے۔مذہب کی بنیاد پر 2011 میں اترپردیش میں ہندو کی آبادی تقریبا 16 کروڑ تھی، جو کل آبادی کا 80 فیصد ہے جبکہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی چار کروڑ، عیسائیوں کی تقریبا چار لاکھ، سکھ مذہب کی ساڑھے چھ لاکھ اور جین کی دو لاکھ تیس ہزار تھی۔ آبادی کے لحاظ سے یو پی کی آبادی دنیا کے صرف پانچ ممالک سے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے آبادی کنٹرول کرنے کی کوشش تیز کردی ہے۔