اترپردیش کے 15 اضلاع کے کچھ علاقوں کو ہاٹ اسپاٹ بنا دیا گیا ہے، جہاں پر چھ سے زائد کورونا سے متاثرین مریض ہیں۔ اس میں دارالحکومت لکھنؤ کے 12 علاقے بھی شامل ہیں۔
شہر میں آٹھ بڑے اور چار چھوٹے ہاٹ اسپاٹ بنائے گئے ہیں، جہاں پر ڈاکٹرز اور پولیس اہلکاروں کے علاوہ کسی کو آنے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ میڈیا پر بھی پابندی ہے۔
ایسے حالات میں عام شہریوں کی زندگی کیسے گزر رہی ہے کیونکہ سارے بازار، دکان، کام دھندے سب پوری طرح بند ہوچکے ہیں۔
بھارت میں ان مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے، جو روز کماتے کھاتے ہیں۔ اب جبکہ کوئی روزگار کے مواقع نہیں ہیں تو ان کی زندگی کیسے گزر رہی ہوگی؟
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے شہر کے پرانے علاقوں میں جاکر کچھ لوگوں سے بات چیت کی۔ ایک مزدوری کرنے والے نے بتایا کہ لاک ڈاؤن بھلے ہی چھ ماہ اور بڑھا دیا جائے، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن حکومت جو وعدہ کرتی ہے، اسے پورا نہیں کرتی۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں نا تو 500 روپے ملے نہ ہزار روپے ملے اور نہ ہی گیس سلینڈر کم قیمت پر ملا۔ یہاں تک کہ سرکاری راشن کی دوکان میں بھی ہمیں پیسے ادا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ہم دوستوں سے ادھار لے کر پریوار پال رہیں ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم غریب مزدوروں کے لیے سب کچھ مفت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسے ہی حالات رہیں اور لاک ڈاؤن بڑھا دیا جاتا ہے تو ہم غریب بھکمری کے شکار ہو جائں گے۔
دوسرے شخص نے بتایا کہ جب بازار اور دکانیں بند ہیں، تو ہمیں جو بھی سامان ملتا ہے اس کی اضافی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر لاک ڈاؤن مزید بڑھتا ہے تو غریبوں کے لیے لئے مشکل پیدا ہوگی۔
اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سبھی اضلاع کے اعلیٰ افسران کو سخت ہدایات دی ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب کسی بھی شہری خاص کر غریب مزدوروں کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہ ہونے پائے۔
لیکن جو تصویر سامنے آ رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاید اعلیٰ افسران اس معاملے کو لے کر سنجیدہ نہیں ہیں۔ ایک طرف سارے کام دھندے بند ہیں، وہیں دوسری جانب کھانے کے اشیاء مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں غریب عوام کیا کرے گی؟