ETV Bharat / state

It's a Fight Between 80 % and 20%, says UP Chief Minister: یوپی انتخابات میں 20 بنام 80 فیصد والے بیان پر سیاسی و سماجی رہنماؤں کا ردعمل - متنازعہ بیان کے خلاف سیاسی رہنماؤں کا رد عمل

کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما و سابق کابینی وزیر نسیم الدین صدیقی نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اسی فیصد بنام بیس فیصد والے بیان پر It's a fight between 80 % and 20%, says UP Chief Minister رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ بی جے پی کے پاس ہندو مسلم مندر مسجد، ذات مذہب کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ اس طریقہ کے بیانات دے رہے ہیں۔

اسمبلی انتخابات
اسمبلی انتخابات
author img

By

Published : Jan 11, 2022, 12:55 PM IST

اترپردیش اسمبلی انتخابات کی بگل بجتے ہی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے. وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ روز کہا کہ اب اترپردیش اسمبلی انتخابات میں لڑائی 20 فیصد بنام 80 فیصد ہوگیا ہے جو لوگ اچھی حکومت اور ترقی کی حمایت کرتے ہیں وہ 80 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں اور جو لوگ غنڈہ گردی، ترقی کی مخالفت اور مافیاؤں کی حمایت کرتے ہیں وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔

اسمبلی انتخابات

یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب یوپی میں ضابطۂ اخلاق کا نفاذ ہوچکا ہے۔ اس بیان پر سیاسی و سماجی حلقوں سے مختلف ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ بعض سیاسی رہنما و دانشور اسے ملک سے غداری کے زمرہ میں رکھتے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سینیئر و آزاد صحافی عبیداللہ ناصر کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے اس بیان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ جب بھی بیان دیتے ہیں تو اس طریقے کے اشتعال انگیز بیانYogi’s ‘80%- 20%’ remark bid to inflame communal tension دیتے ہیں۔ اس بیان کو سماج کا ہر طبقہ سمجھ چکا ہے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیس فیصد جہاں اقلیت ہیں 80 فیصد اکثریتی طبقہ ہے اب ان کے درمیان انتخابات ہونے والا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل درست نہیں ہے اس طرح کے بیانات پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔

آزاد صحافی عبیداللہ ناصر سے جب یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کے اعداد و شمار کو لے کر اسد الدین اویسی ریلیوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مسلمان 19 فیصد ہونے کے باوجود بھی اقتدار میں کیوں نہیں ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اویسی کی سیاست کو اتر پردیش کا مسلمان طبقہ پسند نہیں کرتا ہے۔ انکی اور بی جے پی کی سیاست میں کہیں نہ کہیں یکسانیت نظر آتی ہے۔ جس طریقے سے وہ فرقہ وارانہ اور جذباتی بیان دیتے ہیں اسی طریقے سے بی جے پی بھی فرقہ وارانہ بیانات دیتے چلی آئی ہے۔

کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما و سابق کابینی وزیر نسیم الدین صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ بی جے پی کے پاس ہندو مسلم مندر مسجد، ذات مذہب کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ اس طریقہ کے بیانات دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسد الدین اویسی اور بی جے پی کے مابین کوئی فرق نہیں ہے وہ بھی 20 فیصد کی بات کرتے ہیں اور بی جے پی بھی 80 فیصد کی بات کرتی ہے لہٰذا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔

آل انڈیا مائنارٹیز ایڈووکیٹ کونسل کے قومی صدر قاضی صبیح الرحمٰن کہتے ہیں کہ اس طریقہ کا بیان ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کاروائی کرنی چاہیے۔ اتر پردیش کی عوام آپسی رواداری کے ساتھ زندگی گزارنے پر یقین رکھتی ہے لہٰذا اس طرح کے بیانات اترپردیش کے لوگ سرے سے خارج کریں گے۔

اجمیر درگاہ کمیٹی کے نائب صدر سید بابر اشرف نے کہا کہ آدتیہ ناتھ ایک مذہبی رہنما کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ اور ان کو اس طریقے کا بیان نہیں دینا چاہئے اس نوعیت کا بیان قابل مذمت ہے۔ جو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے مابین دوریاں اور نفرتوں کو بڑھاوا دےگی۔

انہوں نے کہا کہ صوفی سنت و مذہبی رہنماؤں کوگنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ وراثت کاہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ یوگی ادیت ناتھ ایسے عہدے پر ہیں جس کے لئے آئین کی قسم کھائی جاتی ہے۔ لہٰذا ان کا یہ بیان اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ آئین کے بھی مخالف ہے۔ ایسے بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔

اترپردیش اسمبلی انتخابات کی بگل بجتے ہی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے. وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ روز کہا کہ اب اترپردیش اسمبلی انتخابات میں لڑائی 20 فیصد بنام 80 فیصد ہوگیا ہے جو لوگ اچھی حکومت اور ترقی کی حمایت کرتے ہیں وہ 80 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں اور جو لوگ غنڈہ گردی، ترقی کی مخالفت اور مافیاؤں کی حمایت کرتے ہیں وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔

اسمبلی انتخابات

یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب یوپی میں ضابطۂ اخلاق کا نفاذ ہوچکا ہے۔ اس بیان پر سیاسی و سماجی حلقوں سے مختلف ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ بعض سیاسی رہنما و دانشور اسے ملک سے غداری کے زمرہ میں رکھتے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سینیئر و آزاد صحافی عبیداللہ ناصر کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے اس بیان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وہ جب بھی بیان دیتے ہیں تو اس طریقے کے اشتعال انگیز بیانYogi’s ‘80%- 20%’ remark bid to inflame communal tension دیتے ہیں۔ اس بیان کو سماج کا ہر طبقہ سمجھ چکا ہے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیس فیصد جہاں اقلیت ہیں 80 فیصد اکثریتی طبقہ ہے اب ان کے درمیان انتخابات ہونے والا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل درست نہیں ہے اس طرح کے بیانات پر الیکشن کمیشن کو نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔

آزاد صحافی عبیداللہ ناصر سے جب یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کے اعداد و شمار کو لے کر اسد الدین اویسی ریلیوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مسلمان 19 فیصد ہونے کے باوجود بھی اقتدار میں کیوں نہیں ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اویسی کی سیاست کو اتر پردیش کا مسلمان طبقہ پسند نہیں کرتا ہے۔ انکی اور بی جے پی کی سیاست میں کہیں نہ کہیں یکسانیت نظر آتی ہے۔ جس طریقے سے وہ فرقہ وارانہ اور جذباتی بیان دیتے ہیں اسی طریقے سے بی جے پی بھی فرقہ وارانہ بیانات دیتے چلی آئی ہے۔

کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما و سابق کابینی وزیر نسیم الدین صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ بی جے پی کے پاس ہندو مسلم مندر مسجد، ذات مذہب کے نام پر سماج کو تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ اس طریقہ کے بیانات دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسد الدین اویسی اور بی جے پی کے مابین کوئی فرق نہیں ہے وہ بھی 20 فیصد کی بات کرتے ہیں اور بی جے پی بھی 80 فیصد کی بات کرتی ہے لہٰذا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔

آل انڈیا مائنارٹیز ایڈووکیٹ کونسل کے قومی صدر قاضی صبیح الرحمٰن کہتے ہیں کہ اس طریقہ کا بیان ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کاروائی کرنی چاہیے۔ اتر پردیش کی عوام آپسی رواداری کے ساتھ زندگی گزارنے پر یقین رکھتی ہے لہٰذا اس طرح کے بیانات اترپردیش کے لوگ سرے سے خارج کریں گے۔

اجمیر درگاہ کمیٹی کے نائب صدر سید بابر اشرف نے کہا کہ آدتیہ ناتھ ایک مذہبی رہنما کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ اور ان کو اس طریقے کا بیان نہیں دینا چاہئے اس نوعیت کا بیان قابل مذمت ہے۔ جو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے مابین دوریاں اور نفرتوں کو بڑھاوا دےگی۔

انہوں نے کہا کہ صوفی سنت و مذہبی رہنماؤں کوگنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ وراثت کاہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ یوگی ادیت ناتھ ایسے عہدے پر ہیں جس کے لئے آئین کی قسم کھائی جاتی ہے۔ لہٰذا ان کا یہ بیان اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ آئین کے بھی مخالف ہے۔ ایسے بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور الیکشن کمیشن کو نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.