ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ہوا تھا، جس کے پیش نظر پولیس نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں بڑی تعداد میں مظاہرین کو جرمانہ ادا کرنے کا نوٹس جاری کیا تھا۔
واضح رہے کہ اترپردیش پولیس نے اب آٹھ لوگوں کے خلاف 'گینگسٹر ایکٹ' کے تحت کارروائی کرتے ہوئے 'بھگوڑا' قرار دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ 19 دسمبر سنہ 2019 کو دارالحکومت لکھنؤ میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ہوا، جو شام ڈھلتے ڈھلتے پرتشدد ہوگیا تھا، جس میں کئی کار اور بسز کو نذر آتش کردیا گیا تھا، جس کے بعد لکھنؤ پولیس نے مظاہرین پر سخت کاروائی کی ہے۔
لکھنؤ پولیس نے مظاہرین کی شناخت کرکے ان کے فوٹو لگے پوسٹر شہر کے مختلف چوراہوں پر لگایا دیے۔
پولیس نے پوسٹر لگوانے کے بعد سرکاری املاک کی تلافی کے لیے نوٹس بھیجا تھا، اب ایک بار پھر لکھنؤ پولیس ایسے لوگوں پر کارروائی کرتے ہوئے پوسٹر لگوایا ہے۔
پولیس نے ان لوگوں کی خبر دینے والے کو پانچ ہزار روپے کا انعام بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ جن آٹھ مظاہرین کی تصویریں لگائی گئی ہیں، ان میں سب سے بڑا نام 'مولانا سیف عباس' کا ہے، جو شیعہ چاند کمیٹی کے صدر بھی ہیں۔
باقی کے سات لوگوں میں محمد عالم، محمد طاہر، رضوان، نائب عرف رفعت علی، احسن، حسن اور ارشاد وغیرہ شامل ہیں، جن پر ٹھاکر گنج تھانہ میں مقدمہ درج ہے۔
اس کے علاوہ معروف شیعہ عالم دین مولانا 'کلب صادق' کے بیٹے کلب سبطین نوری کا فوٹو بھی لگایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ یوگی حکومت نے احتجاج میں شامل مظاہرین کے پوسٹرز لگانے کا فرمان جاری کیا تھا لیکن بعد میں الہ آباد ہائی کورٹ نے پوسٹر کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم جاری کیا، لیکن اترپردیش حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلینج کیا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ماہ نور چودری نے بتایا تھا کہ 'میں بے قصور ہوں'۔ کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ ثابت نہیں ہوتی کہ میرے ہاتھوں میں پتھر، اینٹ یا کوئی ایسی چیز ہے، جس سے احتجاج میں شامل ہونے کا کے ثبوت ملتا ہو۔
بات چیت کے دوران ماہ نور نے بتایا کہ 'مجھے پولیس نے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور ایک ماہ بعد میری رہائی ہوئی۔ مجھے ایسی سزا ملی ہے، جو میں نے کبھی کیا ہی نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں امید ہے کہ صرف کورٹ سے ہی انصاف مل سکتا ہے، پولیس کاروائی پر بھروسہ نہیں رہ گیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ضلع انتظامیہ نے میرے اوپر 21 لاکھ 76 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے، جبکہ اب پولیس کاروائی سے سوال بھی اٹھنے لگے ہیں کیونکہ سماجی کارکن زینب صدیقی کو گرفتار کرنے گئی پولیس نے اہل خانہ سے مار پیٹ بھی کی تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'پولیس جب گھر پہنچی تب زینب گھر میں موجود نہیں تھی، جس کے بعد پولیس نے نماز ادا کرکے آ رہے ان کے والد کو پکڑلیا۔ ایسا کرنے سے زینب کے بھائی اور بہن اپنے والد کو چھڑانے آئے تو پولیس نے ان کے ساتھ بھی بری طرح تشدد کیا'۔
واضح رہے کہ لکھنؤ پولیس اور ضلع انتظامیہ 19 دسمبر سنہ 2019 کو ہوئے احتجاج کے خلاف سخت کارروائی کو یقینی بناتے ہوئے لوگوں کے گھروں، دکانوں پر نوٹس لگایا تھا۔
ماہ نور چودھری کی دکان پر بھی نوٹس لگا دیا گیا جبکہ انہیں اس کی پہلے سے کوئی جانکاری نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ محض اتنا ہی نہیں بلکہ پیسے جمع نہیں کرنے پر گودام کی نیلامی کرنے کو کہا جارہا ہے۔ ماہ نور کی طرح کئی لوگوں کو پیسے جمع کرنا ہے لیکن ان کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں۔