ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران مینیجر اوم پرکاش سنگھ نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے پہلے ہمارے یہاں 25-26 ہزار لیٹر ڈیزل اور پیٹرول ہر دن ختم ہوتا تھا کیونکہ یہ لکھنؤ کا سب سے زیادہ چلنے والا پیٹرول پمپ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن جب نافذ ہوا، تب بہت کم لوگ آتے تھے لیکن کچھ دنوں سے حالات بدلیں ہیں۔ اب ہمارے یہاں ہر روز 5-6 ہزار لیٹر ڈیزل اور پیٹرول کی فروخت ہو جاتی ہے۔
پیٹرول پمپ کے ملازمین نے بتایا کہ ہم لوگ پانچ فیصد پر کام کر رہے ہیں۔ پہلے یہاں پر لمبی لائن لگی ہوتی تھی۔ کسٹمرز کو اپنی باری کا انتظار رہتا تھا لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے، بامشکل یہاں پر 60-70 کسٹمرز ہی آتے ہیں۔
حالانکہ یہاں کے مالکان نے اپنے ملازمین کو لاک ڈاؤن کے سبب نوکری سے نہیں نکالا بلکہ ان لوگوں کو شفٹ کے حساب سے کام پر بلایا جاتا ہے۔
پہلے اس پیٹرول پمپ پر 35 سے 40 ملازمین ایک ساتھ کام کیا کرتے تھے، لیکن اب 6-7 ملازمین کو ہی ایک دن میں بلایا جاتا ہے۔
آپ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دوسرے پٹرول پمپ کے مالکان کا کیا حال ہوگا؟ جب مالکان کی پٹرول پمپ کے ذریعے آمدنی نہیں ہوگی، تو بھلا وہ اپنے ملازمین کو مفت میں تنخواہ کیوں دیں گے؟
یہ بات دیگر ہے کہ کچھ نیک لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے ملازمین کو نوکری سے نہیں نکالا لیکن ایسے بہت کم لوگ ہیں۔