آگرہ: اترپردیش کے آگرہ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں جامع مسجد آگرہ کی سیڑھیوں کے نیچے مبینہ طور پر دبی کرشن کی مورتی کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ اب ایک عرضی گزار نے عدالت میں درخواست دے کر اے ایس آئی کی ٹیم سے جامع مسجد کا سروے کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 25 اگست کو ہوگی۔
واضح رہے کہ جمعہ کو آگرہ کی ایک عدالت میں 'شری کرشنا جنم بھومی پروٹیکٹڈ سروس ٹرسٹ' کی جانب سے ایک نئی درخواست دائر کی گئی۔ اس میں اے ایس آئی کے تکنیکی ماہرین سے جامع مسجد آگرہ کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کرشن جنم بھومی پروٹیکٹڈ سروس ٹرسٹ کے کتھا کار دیوکی نندن ٹھاکر کا دعویٰ ہے کہ متھرا کے کیشو دیو مندر کی مورتیاں آگرہ کی جہاں آرا بیگم جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دفن ہیں۔ اس سلسلے میں مدعی کے وکیل ونود شکلا نے کہا کہ ہم نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ اے ایس آئی کا سروے کرایا جائے اور اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنیاد پر تنازع حل کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ایک وکیل جنید ارشادی نے بھی عرضی داخل کرکے خود کو معاملے کا فریق بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے دونوں مقدمات کی سماعت کے لیے 25 اگست 2023 کی تاریخ مقرر کی ہے۔
آگرہ جامع مسجد کیس میں ایک اور فریق سامنے آیا
کتھا کار دیوکی نندن ٹھاکر بمقابلہ جامع مسجد کیس میں جمعہ کو ایک اور فریق سامنے آئے۔ ایڈووکیٹ جنید ارشادی نے عدالت میں درخواست جمع کراتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں انہیں بھی فریق بنایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے پاس اس سے متعلق اہم ثبوت بھی ہیں۔
یہ مسجد شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا نے بنوائی تھی
مورخ راج کشور راجے بتاتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے 14 بچے تھے جس میں مہرالنساء بیگم، جہاں آرا، دارا شکوہ، شاہ شجاع، روشن آرا، اورنگزیب، عمید بخش، ثریا بانو بیگم، مراد لطف اللہ، دولت افزا اور گوہرا بیگم شامل تھیں۔ شاہجہاں کی پسندیدہ بیٹی جہاں آرا تھیں۔ جہاں آرا نے اپنے وظیفہ کی رقم سے 1643 اور 1648 کے درمیان جامع مسجد تعمیر کروائی۔ جامع مسجد 271 فٹ لمبی اور 270 فٹ چوڑی ہے۔ اس دور میں اس کی تعمیر میں تقریباً پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ جامع مسجد میں بیک وقت 10 ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔
ہندو فریق کا دعویٰ
ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ ''16ویں صدی کی ساتویں دہائی میں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے متھرا میں کیشو دیو مندر کو منہدم کر دیا تھا۔ کیشو دیو مندر کی مورتیوں اور دیگر چیزوں کو آگرہ لایا گیا اور ان بتوں اور دیگر اشیا کو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دبا دیا گیا۔'' ہندو فریق اپنے یکطرفہ دعوے کی بنیاد پر مبینہ طور پر مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دبے ان بتوں کو نکالنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔