رامپور کے دریائے کوسی کا ایک پل جو گذشتہ کئی برسوں سے سیاست کا شکار ہو گیا ہے۔ رامپور شہر سے تقریباً 15 کلو میٹر دور یہ پل رامپور اور لال پور کو جوڑتا تھا لیکن نوابین رامپور کے زمانے کے بنے اس پل کی معیاد پوری ہو چکی تھی۔
اس وجہ سے گذشتہ سماجوادی حکومت میں وزیر رہے محمد اعظم خاں نے پرانے پل کو منہدم کراکر نئے پل کی تعمیر کا کام شروع کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پل مکمل ہوتا اسی درمیان 2017 کے یو پی اسمبلی انتخابات آ گئے اور پلر تک کام ہونے کے بعد کام کو وہیں روک دیا گیا تھا۔
لیکن انتخابات کے بعد اکثریت حاصل ہو جانے کی وجہ سے بی جے پی کی حکومت بنی، جس کے بعد اب اس پل کی تعمیر کو مکمل کرنے کی ذمہ داری اب بی جے پی حکومت کی ہو گئی تھی۔
بی جے پی کی حکومت کو بھی اب اترپردیش میں ساڑھے تین برس کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی لال پور کا وہ پل ادھورا ہی پڑا ہوا ہے۔
اب جبکہ رامپور کی تحصیل سوار ٹانڈہ اسمبلی حلقہ کی خالی سیٹ پر ضمنی انتخاب ہونا ہے اور یہاں کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی قسمت آزمانے میں لگی ہوئیں، ایسے میں اچانک اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کا رامپور پہنچ کر لال پور پل کی تعمیر کا افتتاح کرنا سوالوں کے گھیرے میں آ گیا ہے۔
عوام کا یہاں واضح طور پر یہی کہنا ہے کہ ساڑھے تین برس تک جو ادھورا پل دکھائی دے رہا تھا، اس کو مکمل کرنے کے لئے ایسے موقع کا استعمال کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
جبکہ نائب وزیر اعلی نے میڈیا کے ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے وہ تو کسی دیگر مقام پر اپنے دورے پر جا رہے تھے۔ اس لئے جاتے جاتے انہوں نے اس پل کو بھی مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہرحال ضمنی انتخاب کے موقع پر ہی صحیح اگر یہ پل تعمیر ہوجاتی ہے تو اس پل کی دوسری جانب واقع لال پور گاؤں کی ہزاروں کی آبادی پر مشتمل عوام کو اس سے کافی فائدہ ہوگا۔
مزید پڑھیں:
'پی ایم کیئر فنڈ کو ’ایمانداری‘ سے خرچ کیا جائے'
اب دیکھنے والی بات یہ بھی ہوگی کہ اس پل کی تعمیر موجودہ بی جے پی حکومت میں ہوپائے گی یا یہاں کی عوام کو آئندہ کسی نئی حکومت کا انتظار کرنا پڑیگا؟