ETV Bharat / state

سیلاب متاثرین دانے دانے کو محتاج - محتاج

اترپردیش کے ضلع کشی نگر میں سیلاب سے متاثر تقریباً 200 سے زیادہ خاندان گذشتہ آٹھ برسوں سے کھلے آسمان کے نیچے گذر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مالی تنگی کا عالم یہ ہے کہ کنبے کے اراکین بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

سیلاب متأثرین دانے دانے کو محتاج
author img

By

Published : Aug 20, 2019, 6:34 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 4:37 PM IST

سیلاب سے بے گھر ہوئے ان خاندانوں کے تقریبا 600 افراد اے پی باندھ پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پلاسٹک کا سائبان بنا کر وہ دن گذارنے پر مجبور ہیں۔ کشی نگر کے تمکوہی راج تحصیل علاقے میں بڑی گنڈک ندی اس وقت اہرولی دان، باگھا چور اور وراٹ کونہولیا سے بالکل منسلک ہوکر بہہ رہی ہے۔ ویسے تو یہ ندی دہائیوں سے بارش میں کافی تباہی مچاتی ہے۔

سنہ 1998 کے بعد ندی کے قریبی گاؤں کو بچانے کے لیے ساحل پر باندھ کی تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد لوگ محفوظ زندگی گذار رہے تھے۔ سنہ 2011 سے گاؤں کو ندی کے سبب آنے والے سیلاب سے بچانے کے لیے باندھ بنایا گیا لیکن پانی باندھ کے اوپر سے بہہ کر گاؤں میں پہنچ رہا اورآس پاس کے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ابتداء سے ہی بڑی گنڈک ندی کے نشانے پر اہرولی دان گاؤں رہا ہے۔ اس گاؤں کے کئی محلوں میں قہر برپا کرنے کے بعد ندی سینکڑوں خاندانوں کے آشیانوں کو اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔ مالی طور سے مضبوط لوگ تو دوسری جگہ مقام بنا کر اہل خانہ کے ساتھ رہنے لگے لیکن مالی تنگی کی وجہ سے گذشتہ آٹھ برسوں سے 200 سے زیادہ خاندان کے تقریبا 600 سے زیادہ لوگ باندھ کے قریب گذر بسر کررہے ہیں۔

سیلاب کی مار سے بے گھر ہوئے لوگوں کے سر پر مستقل طور پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ متأثرہ خاندانوں کے زیادہ تر بچوں کو تعلیم سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ اہرولی دان گاؤں میں اسکول تو ہے لیکن سیلاب متأثرین یہاں بھی پناہ لئے ہوئے ہیں۔اسکول کے کلاس روم میں پڑھائی تو ہوتی ہے لیکن متأثرین کے بچے کلاس میں جانے کے بجائے اہل خانہ کی مدد کرتے ہیں۔

گذشتہ آٹھ سالوں سے اے پی باندھ پر زندگی کا گذارہ کرنے والے 200 سے زیادہ کنبوں کو انتظامیہ کے افسران کے ذریعہ رہائشی پٹے کی یقین دہائی کے بعد اس پر عمل آوری کا بے صبری سے انتظار ہے لیکن اب ان کی یہ امید بھی معدوم ہوتی دکھائی دی رہی ہے کیونکہ انتظامیہ صرف وعدوں کا سبز باغ دکھا رہا ہے۔

سیلاب متأثرین کو رہائشی پٹے دلانے و سیلاب سے بچاو کے لئے گذشتہ آٹھ سالوں میں کئی احتجاج ہوئے اور مہم چلائی گئی۔مقامی ایم ایل اے اجے کمار للو کی سربراہی میں بھی مہم چلائی گئی۔ابھی حال ہی میں سابق ضلع پنچایت گورکھناتھ یادو کی قیادت میں سیلاب متأثرین کے رہائشی پٹے کے لئے احتجاج کرر ہے تھے اس تحریک کو بھی ایس ڈی ایم نے یقین دہانی کے ذریعہ اتوار کو ٹھنڈے بستے میں ڈالا دیا۔

حال ہی میں اے پی باندھ پر رہنے والے دو درجن سے زیادہ کنبوں کو محکمہ سنچائی کی جانب سے نوٹس جاری کر کے جگہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ محکمہ سنیچائی نے اس کنبوں کو غیر قانونی قبضہ جات ہٹانے کے اعتبار سے ان کو نوٹس جاری کیا تھا۔ تمام مخالفت و انتظامیہ کے افسروں کے مداخلت کے بعد معاملہ نرم پڑ گیا۔

ایس ڈی ایم تمکوہی راج اروند کمار نے بتایا کہ متأثرین میں کچھ لوگوں کو پہلے ہی پٹہ دیا جاچکا ہے۔باقی بچے متأثرین کی بھی فہرست تیار کرائی جارہی ہے ۔انہیں بھی پٹے پر زمین مہیا کرا کر انے کی کاروائی جاری ہے۔

سیلاب سے بے گھر ہوئے ان خاندانوں کے تقریبا 600 افراد اے پی باندھ پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پلاسٹک کا سائبان بنا کر وہ دن گذارنے پر مجبور ہیں۔ کشی نگر کے تمکوہی راج تحصیل علاقے میں بڑی گنڈک ندی اس وقت اہرولی دان، باگھا چور اور وراٹ کونہولیا سے بالکل منسلک ہوکر بہہ رہی ہے۔ ویسے تو یہ ندی دہائیوں سے بارش میں کافی تباہی مچاتی ہے۔

سنہ 1998 کے بعد ندی کے قریبی گاؤں کو بچانے کے لیے ساحل پر باندھ کی تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد لوگ محفوظ زندگی گذار رہے تھے۔ سنہ 2011 سے گاؤں کو ندی کے سبب آنے والے سیلاب سے بچانے کے لیے باندھ بنایا گیا لیکن پانی باندھ کے اوپر سے بہہ کر گاؤں میں پہنچ رہا اورآس پاس کے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ابتداء سے ہی بڑی گنڈک ندی کے نشانے پر اہرولی دان گاؤں رہا ہے۔ اس گاؤں کے کئی محلوں میں قہر برپا کرنے کے بعد ندی سینکڑوں خاندانوں کے آشیانوں کو اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔ مالی طور سے مضبوط لوگ تو دوسری جگہ مقام بنا کر اہل خانہ کے ساتھ رہنے لگے لیکن مالی تنگی کی وجہ سے گذشتہ آٹھ برسوں سے 200 سے زیادہ خاندان کے تقریبا 600 سے زیادہ لوگ باندھ کے قریب گذر بسر کررہے ہیں۔

سیلاب کی مار سے بے گھر ہوئے لوگوں کے سر پر مستقل طور پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ متأثرہ خاندانوں کے زیادہ تر بچوں کو تعلیم سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ اہرولی دان گاؤں میں اسکول تو ہے لیکن سیلاب متأثرین یہاں بھی پناہ لئے ہوئے ہیں۔اسکول کے کلاس روم میں پڑھائی تو ہوتی ہے لیکن متأثرین کے بچے کلاس میں جانے کے بجائے اہل خانہ کی مدد کرتے ہیں۔

گذشتہ آٹھ سالوں سے اے پی باندھ پر زندگی کا گذارہ کرنے والے 200 سے زیادہ کنبوں کو انتظامیہ کے افسران کے ذریعہ رہائشی پٹے کی یقین دہائی کے بعد اس پر عمل آوری کا بے صبری سے انتظار ہے لیکن اب ان کی یہ امید بھی معدوم ہوتی دکھائی دی رہی ہے کیونکہ انتظامیہ صرف وعدوں کا سبز باغ دکھا رہا ہے۔

سیلاب متأثرین کو رہائشی پٹے دلانے و سیلاب سے بچاو کے لئے گذشتہ آٹھ سالوں میں کئی احتجاج ہوئے اور مہم چلائی گئی۔مقامی ایم ایل اے اجے کمار للو کی سربراہی میں بھی مہم چلائی گئی۔ابھی حال ہی میں سابق ضلع پنچایت گورکھناتھ یادو کی قیادت میں سیلاب متأثرین کے رہائشی پٹے کے لئے احتجاج کرر ہے تھے اس تحریک کو بھی ایس ڈی ایم نے یقین دہانی کے ذریعہ اتوار کو ٹھنڈے بستے میں ڈالا دیا۔

حال ہی میں اے پی باندھ پر رہنے والے دو درجن سے زیادہ کنبوں کو محکمہ سنچائی کی جانب سے نوٹس جاری کر کے جگہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ محکمہ سنیچائی نے اس کنبوں کو غیر قانونی قبضہ جات ہٹانے کے اعتبار سے ان کو نوٹس جاری کیا تھا۔ تمام مخالفت و انتظامیہ کے افسروں کے مداخلت کے بعد معاملہ نرم پڑ گیا۔

ایس ڈی ایم تمکوہی راج اروند کمار نے بتایا کہ متأثرین میں کچھ لوگوں کو پہلے ہی پٹہ دیا جاچکا ہے۔باقی بچے متأثرین کی بھی فہرست تیار کرائی جارہی ہے ۔انہیں بھی پٹے پر زمین مہیا کرا کر انے کی کاروائی جاری ہے۔

Intro:Body:

people affected due to floos in uttar pradesh


Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 4:37 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.