ETV Bharat / state

اویسی کا یوپی میں داخلہ، اکھیلیش کی خاموشی کا مطلب کیا ہے؟ - یوپی میں بی جے پی

اترپردیش اسمبلی انتخابات میں ایک سال سے زائد وقت باقی ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں شدت اختیار کرچکی ہیں۔ منگل کو پوروانچل میں اپنی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لئے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی بنارس ایئرپورٹ پہنچے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا اس کے بعد انہوں نے جونپور اور اعظم گڑھ کا رخ کیا۔

asaduddin-owaisi-entry-in-up-assembly-elections-2022-may-increase-akhilesh-yadav-problems
اویسی کا یوپی میں داخلہ، اکھیلیش کی خاموشی کا مطلب کیا ہے؟
author img

By

Published : Jan 12, 2021, 7:22 PM IST

اسد الدین اویسی نے مشن یوپی 2022 کی مہم شروع کرنے کے لئے ایس پی سربراہ اکھیلیش یادو کے پارلیمانی حلقہ اعظم گڑھ کا انتخاب کیا ہے۔ AIMIM کی سیاسی نیت اس کے پیچھے صاف نظر آرہی ہے۔

اویسی کا یوپی میں داخلہ، اکھیلیش کی خاموشی کا مطلب کیا ہے؟

آج سردی کے موسم میں یوپی کی سیاست گرم ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ پوروانچل کے دورے پر ایک ہی دن دو بڑی سیاسی شخصیت کی آمد ہے۔ ان میں سے ایک سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھیلیش یادو ہیں، جو آج وارانسی کے راستے جون پور روانہ ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حیدرآباد سے ایم آئی ایم کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے بہار میں پانچ نشستوں پر کامیابی کے بعد یوپی کی سیاست میں داخلہ لیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اویسی نے سب سے پہلے اعظم گڑھ میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے، جسے یوپی میں سماج وادی پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اکھیلیش یادو کی خاموشی نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ آنے والے وقت میں متحدہ فرنٹ، جو اویسی نے بھارتیہ سماج پارٹی کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے، سماج وادی پارٹی بھی اس کا حصہ بن سکتی ہے۔

ایس پی کے گڑھ میں اویسی۔۔۔

یوپی کی سیاست میں پوروانچل کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی اور سیاست کرنے والی چھوٹی جماعتیں یوپی میں پورانچل کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔

پوروانچل ہر ایک کے لیے اہمیت کا حامل۔۔۔

ایک طویل عرصے کے بعد جب یوپی میں بی جے پی نے حکومت بنائی، تو بھارتیہ سماج پارٹی نے اتحادی کے کردار میں رہ کر بی جے پی کی حمایت کی۔ تاہم بعد میں بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اور کابینہ کے وزیر اوم پرکاش راج بھر نے خود کو بی جے پی سے الگ کرنے اور متحدہ محاذ بنانے کی تیاری شروع کردی۔

وہیں جب اس متحدہ محاذ میں حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ، اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اسدالدین اویسی کا نام شامل ہوا تو یوپی کا سیاسی پارا چڑھنا شروع ہوا۔

اویسی کے بیان پر اکھیلیش کی خاموشی۔۔۔

اسدالدین اویسی نے سماج وادی پارٹی پر شدید حملہ کیا اور ایس پی کی حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یوپی میں 28 مرتبہ ایس پی حکومت نے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ تاہم ان سب کے بعد بھی اکھیلیش نے اویسی کے اس بیان پر رد عمل نہ دیتے ہوئے ایک اشارہ دیا ہے کہ وہ متحدہ محاذ کے حوالے سے نرم گوشہ رکھے ہوئے ہے۔

اویسی کی آمد سے یو پی کی سیاست میں شدت۔۔۔

گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ساتھ اکھیلیش کی وابستگی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے کہیں سے بھی متحد ہوسکتی ہیں۔ جب مایاوتی یعنی بی ایس پی، کانگریس اور سماج وادی پارٹی پچھلے انتخابات میں متحد ہوئے تو سیاسی پارا بڑھ گیا اور اس بار متحدہ محاذ میں اویسی کے داخلے نے ایک بار پھر یوپی کی سیاست کو گرمانے کا کام کیا ہے۔

پوروانچل کی سیٹوں پر زور آزمائی۔۔۔

یوپی کی سیاست میں پوروانچل ذات پات کی سیاست کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں عظیم اتحاد نے اس ذات پات کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ ایک ناکامی ثابت ہوئی۔ ایک بار پھر جب 2022 کے اسمبلی انتخابات قریب آئے، تو ہر پارٹی پوروانچل کی 90 نشستوں پر کوشش کرنے کے لئے ذات پات کے دلدل میں شامل ہوگئی۔

مسلم ووٹرز کے بکھرنے کا ڈر۔۔

اعظم گڑھ مسلم ووٹروں کے لحاظ سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ملائم اور اب اکھیلیش بھی اسے سماج وادی پارٹی کا گڑھ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذات پات کی مساوات میں الجھے پوروانچل میں اویسی کی آمد سے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے لئے کہیں نہ کہیں تناؤ بڑھ سکتا ہے، کیونکہ اعظم گڑھ، جون پور، مئو، غازی پور سمیت دیگر اضلاع کے مسلم ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ان سیاسی جماعتوں کو مستفید کرتی رہی ہے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخابات میں پانچ نشستوں پر کامیابی کے بعد اویسی نے یوپی کا رخ کیا ہے۔

مسلمانوں پر منحصر ہونا کتنا اہم؟

یوپی کی سیاست میں مسلم ووٹرز کی تعداد ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کو مضبوط بنانے کا کام کرتی ہے۔ لیکن 2017 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں پر مطمئن ہونا ان پارٹیوں کے لیے بھاری پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد مسلم رہنما کے طور پر پہچان بنا چکے اویسی نے اب یوپی میں داخلہ لیا اور اکھلیش یادو بھی پورانچل کے دورے پر نکل پڑے۔ اترپردیش میں مسلم ووٹروں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر الیکشن میں سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کے میدان میں مسلم امیدواروں کی جیت کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔

اویسی سے ایس پی کو خطرہ؟

دوسری طرف اعظم گڑھ میں ایس پی کی طاقت کو دیکھتے ہوئے اویسی کی یوپی سیاست میں اعظم گڑھ کے ساتھ آغاز کو بھی ایک نئی کہانی لکھنے کی تیاری سمجھا جاسکتا ہے۔ تاہم ایس پی کارکن اویسی کے داخلے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اویسی ووٹ کاٹنے والے ہوسکتے ہیں، لیکن ایس پی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پائیں گے۔

اسد الدین اویسی نے مشن یوپی 2022 کی مہم شروع کرنے کے لئے ایس پی سربراہ اکھیلیش یادو کے پارلیمانی حلقہ اعظم گڑھ کا انتخاب کیا ہے۔ AIMIM کی سیاسی نیت اس کے پیچھے صاف نظر آرہی ہے۔

اویسی کا یوپی میں داخلہ، اکھیلیش کی خاموشی کا مطلب کیا ہے؟

آج سردی کے موسم میں یوپی کی سیاست گرم ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ پوروانچل کے دورے پر ایک ہی دن دو بڑی سیاسی شخصیت کی آمد ہے۔ ان میں سے ایک سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھیلیش یادو ہیں، جو آج وارانسی کے راستے جون پور روانہ ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حیدرآباد سے ایم آئی ایم کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے بہار میں پانچ نشستوں پر کامیابی کے بعد یوپی کی سیاست میں داخلہ لیا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اویسی نے سب سے پہلے اعظم گڑھ میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے، جسے یوپی میں سماج وادی پارٹی کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اکھیلیش یادو کی خاموشی نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ آنے والے وقت میں متحدہ فرنٹ، جو اویسی نے بھارتیہ سماج پارٹی کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے، سماج وادی پارٹی بھی اس کا حصہ بن سکتی ہے۔

ایس پی کے گڑھ میں اویسی۔۔۔

یوپی کی سیاست میں پوروانچل کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، سماج وادی پارٹی اور سیاست کرنے والی چھوٹی جماعتیں یوپی میں پورانچل کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔

پوروانچل ہر ایک کے لیے اہمیت کا حامل۔۔۔

ایک طویل عرصے کے بعد جب یوپی میں بی جے پی نے حکومت بنائی، تو بھارتیہ سماج پارٹی نے اتحادی کے کردار میں رہ کر بی جے پی کی حمایت کی۔ تاہم بعد میں بھارتیہ سماج پارٹی کے سربراہ اور کابینہ کے وزیر اوم پرکاش راج بھر نے خود کو بی جے پی سے الگ کرنے اور متحدہ محاذ بنانے کی تیاری شروع کردی۔

وہیں جب اس متحدہ محاذ میں حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ، اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اسدالدین اویسی کا نام شامل ہوا تو یوپی کا سیاسی پارا چڑھنا شروع ہوا۔

اویسی کے بیان پر اکھیلیش کی خاموشی۔۔۔

اسدالدین اویسی نے سماج وادی پارٹی پر شدید حملہ کیا اور ایس پی کی حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یوپی میں 28 مرتبہ ایس پی حکومت نے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ تاہم ان سب کے بعد بھی اکھیلیش نے اویسی کے اس بیان پر رد عمل نہ دیتے ہوئے ایک اشارہ دیا ہے کہ وہ متحدہ محاذ کے حوالے سے نرم گوشہ رکھے ہوئے ہے۔

اویسی کی آمد سے یو پی کی سیاست میں شدت۔۔۔

گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ساتھ اکھیلیش کی وابستگی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے کہیں سے بھی متحد ہوسکتی ہیں۔ جب مایاوتی یعنی بی ایس پی، کانگریس اور سماج وادی پارٹی پچھلے انتخابات میں متحد ہوئے تو سیاسی پارا بڑھ گیا اور اس بار متحدہ محاذ میں اویسی کے داخلے نے ایک بار پھر یوپی کی سیاست کو گرمانے کا کام کیا ہے۔

پوروانچل کی سیٹوں پر زور آزمائی۔۔۔

یوپی کی سیاست میں پوروانچل ذات پات کی سیاست کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں عظیم اتحاد نے اس ذات پات کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ ایک ناکامی ثابت ہوئی۔ ایک بار پھر جب 2022 کے اسمبلی انتخابات قریب آئے، تو ہر پارٹی پوروانچل کی 90 نشستوں پر کوشش کرنے کے لئے ذات پات کے دلدل میں شامل ہوگئی۔

مسلم ووٹرز کے بکھرنے کا ڈر۔۔

اعظم گڑھ مسلم ووٹروں کے لحاظ سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ملائم اور اب اکھیلیش بھی اسے سماج وادی پارٹی کا گڑھ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ذات پات کی مساوات میں الجھے پوروانچل میں اویسی کی آمد سے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے لئے کہیں نہ کہیں تناؤ بڑھ سکتا ہے، کیونکہ اعظم گڑھ، جون پور، مئو، غازی پور سمیت دیگر اضلاع کے مسلم ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ان سیاسی جماعتوں کو مستفید کرتی رہی ہے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخابات میں پانچ نشستوں پر کامیابی کے بعد اویسی نے یوپی کا رخ کیا ہے۔

مسلمانوں پر منحصر ہونا کتنا اہم؟

یوپی کی سیاست میں مسلم ووٹرز کی تعداد ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کو مضبوط بنانے کا کام کرتی ہے۔ لیکن 2017 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں پر مطمئن ہونا ان پارٹیوں کے لیے بھاری پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد مسلم رہنما کے طور پر پہچان بنا چکے اویسی نے اب یوپی میں داخلہ لیا اور اکھلیش یادو بھی پورانچل کے دورے پر نکل پڑے۔ اترپردیش میں مسلم ووٹروں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر الیکشن میں سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کے میدان میں مسلم امیدواروں کی جیت کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔

اویسی سے ایس پی کو خطرہ؟

دوسری طرف اعظم گڑھ میں ایس پی کی طاقت کو دیکھتے ہوئے اویسی کی یوپی سیاست میں اعظم گڑھ کے ساتھ آغاز کو بھی ایک نئی کہانی لکھنے کی تیاری سمجھا جاسکتا ہے۔ تاہم ایس پی کارکن اویسی کے داخلے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اویسی ووٹ کاٹنے والے ہوسکتے ہیں، لیکن ایس پی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پائیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.