علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی سابق طالبہ اور سپریم کورٹ آف انڈیا کی ایڈووکیٹ مس سنجیتا این نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے پوئے کہا کہ صنفی تشدد ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ بنیادی عدم مساوات کو ختم نہیں کیا جاتا، وہ اے ایم یو کے ایڈوانس سنٹر فار ویمنس اسٹڈیز کے زیراہتمام صنف پر مبنی تشدد اور قانون کے موضوع پر آن لائن خطبہ پیش کر رہی تھی۔
سنچیتا نے صنف پر مبنی تشدد کے اسباب بیان کرتے ہوئے اس کی مختلف شکلوں پر گفتگو کی اور اس کی روک تھام کے لیے قانونی تدابیر پر روشنی ڈالی۔ صنف کی بنیاد پر امتیاز کو صنفی تشدد کے سب سے زیادہ نظر آنے والی شکل قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنفی تشدد کو ختم کرنے کے لیے ایک نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے تحت تشدد کا سامنا کرنے والوں کے لئے تربیتی پروگرام دینا ہوگا اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے غیر مساوی طاقت پر مبنی تعلقات کا سدباب ہوسکے۔
اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر جاوید طالب (شعبہ قانون، اے ایم یو) نے کہا کہ صنفی تشدد کے واقعات پوری دنیا میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا "نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق بھارت میں 15 سے 49 سال کی 30 فیصد خواتین جسمانی تشدد کا سامنا کرتی ہیں جبکہ 2 فیصد نے اپنی زندگی میں کم سے کم ایک بار جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنسی تشدد کے زیادہ معاملے سماجی توہین کی وجہ سے سامنے نہیں لائے جاتے۔
سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر پروفیسر عذرا موسوی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آن لائن لیکچر میں ملک و بیرون ملک کے مختلف یونیورسٹیز کے صنفی مطالعات و دیگر موضوعات کے طلباء و طالبات نے کثیر تعداد میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر عزیز فیصل نے اظہار تشکر کیا۔