اتر پردیش حکومت نے ریاست کے سبھی غیر منظورشدہ مدارس کے سروے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں ضلع انتظامیہ کے اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی اور کہا تھا کہ یہ ٹیم سروے مکمل کرنے کے بعد حکومت کو رپورٹ سپرد کرے گی۔ کچھ مدارس میں سروے ٹیم گئی لیکن بیشتر مدارس میں یہ ٹیم نہیں گئی اور مدراس والوں کو سروے پرفارمہ بانٹ دیا گیا جس کے بعد اب سماجی کارکنان آواز بلند کر رہے ہیں کہ جن مدارس کے سروے کو قومی سطح کا ایشو بنایا گیا، اقلیت کو ڈرایا گیا اس سروے کے لیے انتظامیہ کی ٹیم اب فعال کیوں نہیں ہے اور سروے ٹیم صرف دارالعلوم دیوبند و ندوۃ العلما میں ہی کیوں گئی؟کیا حکومت کے نشانے پر یہی دو مدارس تھے۔ The reaction of intellectuals to the survey of some Madrasahs under the Madrasa Survey
لکھنؤ کی قدیم معروف تنظیم انجمن اصلاح المسلمین کے سکریٹری اطہر نبی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو مسلمانوں کو سروے کے نام پر خوف کا ماحول قائم کیا گیا، اور اکثریتی طبقہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مدارس اور مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمیعت علماء سمیت بڑی تنظیموں نے مدرسہ سروے کی حمایت کی، اس کے بعد حکومت کا رویہ سرد پڑگیا۔
مزید پڑھیں:Muslim Scholars on Madarsa مرادآباد مدرسہ سروے پر مسلم اسکالرز کا ردعمل
انہوں نے کہا کہ مدارس کے سروے کے حوالے سے حکومت نے جو ٹیم بنائی تھیں انہیں ہر مدرسے میں جانا چاہیے نہ کہ فارم تقسیم کرا کر خانہ پوری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے حوالے سے سروے سے متعلق میڈیا رپورٹیں شائع ہوئیں۔ ان کے علاوہ دیگر غیر منظور شدہ مدارس کا سروے کیسے ہوا؟ اور انتظامیہ کو پروفارمہ پر درج معلومات کون فراہم کرے گا؟ اس کا ویریفیکیشن کون کرے گا؟ اگر ویری فیکشن نہیں ہوا تو سروے فارم پر درج اطلاعات کی بنیاد پر مستقبل میں پھر مدرسوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔