اُترپردیش کے ضلع پریاگ راج میں چند روز قبل الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا شریواستو نے ضلع انتظامیہ کو خط لکھا تھا کہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان ہونے سے ان کی نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے لہٰذا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان دی جائے۔ اس کے بعد سے ریاست میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔
وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا شریواستو کے اذان پر اعتراض کے بعد بنارس یونیورسٹی کے طالب علم نے بھی اذان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اذان کی آواز سے امتحان کی تیاری میں دشواری ہو رہی ہے۔ ابھی یہ دونوں معاملے لوگوں کے ذہن سے اوجھل نہیں ہوئے تھے کہ یوگی حکومت کے وزیر آنند سوروپ شرما نے بھی اذان پر بیان دے کر اس معاملے کو ہوا دے دی ہے۔
آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر یعسوب عبّاس نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم یوپی حکومت کے وزیر کے بیان کی مذمت کرتے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے گزارش کرتے ہیں کہ ایسے افراد پر لگام کسی جائے چونکہ اذان پر اعتراض کرنا صحیح نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ بھارت میں ساجھی وراثت ہے، یہاں مندروں سے گھنٹے کی آواز آتی ہے اور مساجد سے اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں لیکن بھارت کے ہندوؤں کو کبھی اذان سے اور ملک کے مسلمانوں کو کبھی بھی مندر سے بجنے والے گھنٹے کی آواز سے پریشانی نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر یعسوب عبّاس نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ طاقتیں ہندو اور مسلم میں دوریاں بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اتر پردیش کے وزیر آنند شرما بھی اس میں شامل ہیں۔ میں مرکزی اور ریاستی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں پر لگام لگائی جائے، ورنہ ملک کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ماضی میں گلوکار سونو نگم نے مائیک سے اذان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ان کی نیند خراب ہوتی ہے، تب اُن کے بیان پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ اب الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر، بنارس کے طالب علم اور اب یوگی حکومت کے ایک وزیر کو فجر کی اذان سے نیند میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔