لکھنو: لکھنو کے راجیو پرکاش گرگ ساحر نہ صرف اردو زبان کے شیدائی ہیں، بلکہ انہوں نے اردو زبان میں کئی افسانے تصنیف کیے ہیں۔ انہوں نے دوران ملازمت اردو رسم الخط کو سیکھا اور آج وہ اردو کتابوں کے مصنف ہیں ان کے افسانوی مجموعہ زرد موسم کا تعاقب کچھ ہی دنوں میں منظر عام پر آنے والا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے راجیو پرکاش ساحر سے خاص بات چیت کی انہوں نے اردو زبان سے وابستگی کے سفر کو بیان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اگرچہ اردو زبان تعصب کے سیاست کا شکار ہے لیکن ماضی میں اس نے انقلاب برپا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں اردو زبان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تاج محل خوبصورت ہے تو ہے اگر کوئی تاج محل کو عیب کی نظروں سے دیکھے تو اس میں تاج محل کا کوئی قصور نہیں یہی حال اردو زبان کا ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو بلاتفریق ملت و مذہب سبھی کو متاثر کرتی ہے، ہمارے گھر میں اردو بولنے والے لکھنے والے قلم کار اور شاعر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اردو کی محبت اگرچہ تاخیر سے بیدار ہوئی لیکن جب اس کی جانب دلچسپی بڑی تو 2008 میں اتر پردیش اردو اکیڈمی میں داخلہ لیا اور میں نے اردو رسم الخط اور زبان سیکھا۔ ہمارے درمیان کئی غیر مسلم ساتھی تھے جو ملازمت کے ساتھ نہ صرف اردو پورے لگن کے ساتھ سیکھ رہے تھے بلکہ اس کی فروغ کے لئے بھی کوشش کرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اگرچہ اردو کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں، لیکن ہمارے گھر کا ماحول اردو کا ماحول ہے یہی گنگا جمنی تہذیب ہے۔ ساحر نے حالیہ دور میں اردو زبان میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ہے زرد موسم کا تعاقب اس میں متعدد افسانے تصنیف کیے ہیں جو ماحولیات پر محیط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماحولیات کے تعلق سے مجھے بے چینی ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کی فضا میں زہر آلود ہوائیں لوگوں کے ذہن کو زہر آلود نہ کر دیں ندیاں آلود ہو رہی ہیں پیڑ کاٹے جا رہے ہیں جنگلی جانوروں کے رہنے کا کوئی جگہ نہیں ہے شہروں میں بے تحاشہ دھواں غبار پر افسانے لکھے ہیں۔
مزید پڑھیں:Maulana Tahir Qasmi Passes away مظفرنگر جمعیت جنرل سکریٹری مولانا طاہر قاسمی کا انتقال
راجو پرکاش سیکولر خیال کے حامی ہیں ان کا صاف کہنا ہے کہ ہم مسلم اور غیر مسلم کہنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ سبھی ہمارے بھائی ہیں اور اسی جذبے کے ساتھ کسی زبان مذہب اور ذات پات کے ساتھ امتیاز نہیں کرتے ہیں۔