ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے چاندی کا ورق بنانے والے محمد الیاس بتاتے ہیں کہ تقریبا 35 برس سے وہ اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ تین گھنٹے مسلسل بکرے کے چمڑے کے بیگ میں مختلف جھلیوں کو رکھ کر ضرب مارتے ہیں۔ اس کے بعد چاندی کا ورق بازار میں فروخت کے قابل ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہیں فقط سو روپے مزدوری ملتی ہے۔
محمد الیاس بتاتے ہیں کہ یہ ورق خالص چاندی کا ہوتا ہے۔ مسلسل تین گھنٹہ لوہے کے ہتھوڑے سے ضرب مارنے کے بعد یہ بازار میں فروخت کے قابل ہوتا ہے۔ بنارس میں یہ کاروبار کافی قدیم ہے۔ خاص طور سے مٹھائیوں کے اوپر، پان، معجون یا دیگر مقوی غذا میں ڈال کر اسے کھایا جاتا ہے لیکن یہ کاروبار رفتہ بزوال ہے۔
محمد ابراہیم نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معمولی مزدوری ہونے کی وجہ سے اب نئی نسل اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن نے چاندی کا ورق بنانے والوں کے زندگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔ کئی کاریگر اس کام سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔ چند افراد اس کام سے وابستہ ہیں لیکن ان کی زندگی مشکلات سے بھری ہے۔