ڈاکٹر قاسم رسول نے مزید کہا کہ جب عدالت چاہتی تھی تو ہم نے ثالثی کی نہ صرف وکالت کی بلکہ اس میں تعاون بھی کیا، لیکن اب ہم کسی بھی طرح کی بات چیت کی گنجائش میں نہیں ہیں ۔
سنی وقف بورڈ کی جانب سے مذاکرات کی تائید کرنے کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر قاسم نے کہا کہ ہماری جانب سے تقریبا 8 فریق ہیں، اگر ایک فریق بات چیت کرنا چاہتا ہے تو کرے، ہم نہیں کریں گے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرتے چلیں کہ سپریم کورٹ میں ایودھیا کیس کی سماعت کے سترہویں دن سے مسلم فریق کی طرف سے بحث کا آغاز کیا گیا۔
مسلم فریق کی جانب سے پیش ہوئے ملک کے سرکردہ وکیل ڈاکٹر ظفریاب جیلانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا کہ 'مسلم فریق نے آج سے ہندو فریق کا جواب دینا شروع کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ گزشتہ 16 دنوں سے ہندو فریق کی جانب سے کئی دلائل رکھے گئے جس کا جواب دے رہے ہیں، جوابی بحث کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ہم اپنے دلائل سامنے رکھ رہے ہیں'۔
انہوں نے بتایا: 'اس مقدمے میں اسلامی قانون اور ہندو قانون کے حوالے سے بحث ہوئی تھی، جس کے جواب میں ہم نے کہا کہ دونوں قانون کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ انگریزوں کے عہد کے قانون کو مدنظر رکھنا ہوگا۔'
خیال رہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔