بہار: ریاست بہار کے ضلع گیا میں اترپردیش کی مرادآبادی بریانی کی دھوم ہے۔ یہاں گیا کے جی ٹی روڈ پر چھ اسٹال ہیں، جہاں ہر دن ایک اسٹال سے پچاس کلو کے پانچ سے سات دیگ بریانی کی خریداری ہوتی ہے۔ مرادآبادی بریانی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کھڑے مسالہ میں بنتی ہے اور اس میں روغن بھی نہیں ہوتا ہے۔ گیا کے باشندوں کو مرادآبادی بریانی خوب پسند آرہی ہے۔ بریانی ایک ایسی لذیذ اور ذائقہ دار ڈش ہے جو گلی محلوں میں اکثر دستیاب ہوتی ہے لیکن جب یہاں کسی خاص جگہ کی مقبول اور اس کے نام سے منسوب بریانی فروخت کرنے خود وہیں کے کاریگر کسی جگہ پر پہنچتے ہیں تو مقامی شہریوں کے لیے نیا ذائقہ ایک تحفہ ہوتا ہے۔
ضلع گیا سے گزرنے والی سڑکوں کے کنارے ان دنوں مرادآبادی بریانی کی دھوم ہے۔ مرادآباد سے آئے لوگ یہاں بریانی بناکر فروخت کررہے ہیں۔ اس حوالےسے ای ٹی وی بھارت نے خاص رپورٹ تیارکی ہے کہ مرادآباد کے کاریگروں نے گیا شہر کو چھوڑ کر سب ڈیویزن کے شہر شیرگھاٹی کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس حوالے سے نمائندہ ای ٹی وی بھارت نے ضلع ہیڈکوارٹر سے 40کلومیٹر دور شیرگھاٹی کے حمزہ پور موڑ پر پہنچے تو پایا کہ وہاں پر مرادآبادی بریانی کے کئی سینٹرز موجود ہیں، جہاں پر کلو کے لحاظ سے بریانی فروخت ہوتی ہے۔ گیا میں روایتی طور پر پلیٹ کے لحاظ سے بریانی فروخت ہوتی ہے لیکن مرادآبادی بریانی کلو کے لحاظ سے فروخت ہوتی ہے، یہاں روزآنہ سینکڑوں افراد بریانی سینٹر پر پہنچ کر مرادآبادی بریانی کے ذائقے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
مرادآبادی بریانی کو شیرگھاٹی اور قرب وجوار کے لوگ خوب پسند کرتے ہیں اور کھانے آتے ہیں۔ یہاں بریانی سینٹر پر بریانی کے ذائقہ سے لطف اندوز ہور ہے کمار نے بتای اکہ وہ اس بریانی کے کافی شوقین ہیں، انہیں مسالہ والی بریانی پسند نہیں ہے۔ وہ گیا شہر میں ایک بینک میں جاب کرتے ہیں اور وہ شہر سے چالیس کلو میٹر دور شیرگھاٹی کے حمزہ پور موڑ پر مرادآبادی بریانی کھانے آتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ویسے انکا آبائی گھر اورنگ آباد ضلع ہے۔ اسی راستے سے وہ ہر ہفتے اپنے گھر جاتے ہیں اور یہاں وہ رک کر ضرور بریانی کھاتے ہیں اور اہل خانہ کے لیے بھی لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسکا ذائقہ بے حد پسند ہے۔ یہاں انکے ہوٹل میں مسلمان سے زیادہ ہندو بھائی پہنچتے ہیں حالانکہ جس جگہ پر مرادآبادی بریانی سینٹر ہے، وہ ایک مسلم محلہ ہے چونکہ نیشنل ہائی وے پر یہ موجود ہے تو لوگوں کو یہاں پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: لکھنؤ کی ادریس بریانی دنیا بھر میں کیوں ہے مشہور؟
مرادآبادی بریانی سینٹر کے مالک محمد رضوان نے کہاکہ وہ تین برس قبل یہاں آئے تھے، یہاں کے مقمی لوگ کافی معاون و مدد گار ہیں اور انکے ہوٹل میں سبھی طبقے کے لوگ بریانی کھانے آتے ہیں۔ بریانی کو لذیذ بنانے کے لیے انکے کاریگر کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں، وہ بریانی میں استعمال ہونے والے سبھی سامان جیسے چاول، مسالہ اور دیگر سامان کو مرادآباد سے مینگواتے ہیں تاکہ ذائقے میں کوئی کمی نہ ہو۔ ہردن ایک اسٹال سے دو سو سے ڈھائی سو کلو بریانی فروخت ہوجاتی ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ مرادآبادی والے ٹیسٹ کی بریانی گیا کے دوسری جگہوں پر دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سبھی سامان عام بریانی کی طرح ہی استعمال ہوتے ہیں لیکن یہ خاص کھڑے مسالہ سے تیار ہوتی ہے اور اسکو بنانے کی صرف تکنیک ہے، جس کو لوگ کافی پسندید کرتے ہیں، یہاں شیرگھاٹی میں چار اسٹال ہیں، جہاں پر پچیس کاریگر اور دوسرے افراد مرادآباد سے آکر کام کررہے ہیں، یہاں دو سو روپے فی کلو بریانی فروخت ہوتی ہے۔
گیا کے قومی شاہرہ پر بریانی سینٹر کھولنے کی وجہ ایک اور کاریگر محمد تسلیم بتاتے ہیں چونکہ قومی شاہرہ پر چوبیس گھنٹے گاڑیوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ اس راستے سے اترپردیش کی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اسلیے یہاں لوگ دن رات کھانے کے لیے آتے ہیں۔ قومی شاہرہ کے کنارے جس طرح سے ڈھابے 'کھانے کے ہوٹل' ہوتے ہیں، اسی طرح انکے بریانی سینٹر کا بھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہاں صرف بریانی ملتی ہے جبکہ ڈھابے پر ہر طرح کا کھانا ملتا ہے۔انہوں نے بتایاکہ ہردن انکی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے کیونکہ بریانی کے شائقین کے لیے شدید چاہت کی کوئی حد نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ انکے یہاں لوگ کئی کلومیٹر کا سفر طے کرکے بریانی کھانے آتے ہیں۔