اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں نوابوں کے دور حکومت سے محرم الحرام میں عزاداری، تعزیہ داری، مجالس کی روایات چلی آ رہی ہیں لیکن اس بار کورونا نے اس روایات کو توڑ دیا۔ لکھنؤ کو امام بارگاہوں کا بھی شہر کہا جاتا ہے، جہاں ماہ محرم میں زائرین کی کثیر تعداد ہوتی ہے لیکن کورونا وبا کے چلتے اس بار ایسا نہیں ہوا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران اطہر کاظمی نے کہا کہ تمام لوگ اس بات کی امید لگائے ہوئے تھے کہ شاید حکومت کی طرف سے کچھ راحت ملے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہے۔ ظاہر ہے کہ چار پانچ ماہ سے ہم نے دیکھا کہ سبھی مذہبی رسومات کو منسوخ کر دیا گیا یا پھر اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب ہمارے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی حفاظت کریں اور کورونا گائیڈ لائن پر عمل کریں۔
انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہے۔ ظاہر ہے کہ چار پانچ ماہ سے ہم نے دیکھا کہ سبھی مذہبی رسومات کو منسوخ کر دیا گیا یا پھر اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب ہمارے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی حفاظت کریں اور کورونا گائیڈ لائن پر عمل کریں۔
ہادی صاحب نے کہا کہ میں ای ٹی وی بھارت کے ذریعے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ عقیدہ اپنی جگہ اور عمل اپنی جگہ، کورونا سے پوری دنیا پریشان ہے۔ اس سے پہلے بھی شب برات، رمضان، عید کی نماز اور تمام روضہ کی زیارت نہیں ہو پا رہی تھی لیکن بعد میں حکومت نے کچھ شرائط کے ساتھ اجازت دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کورونا گائیڈ لائن کی شرائط کے ساتھ تعزیہ داری کی اجازت دے تو بہتر ہے۔ لیکن اب ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے، جس میں تعزیہ داری کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
کورونا وائرس زندگی کے ہر شعبوں میں اثر انداز ہے، جس وجہ سے تمام مذہبی رسومات ادا کرنا کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف لوگوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا رخ کیا لیکن مایوسی ہی ہاتھ لگی۔