اسی پس منظر میں اب بریلی میں واقع ایم جے پی روہیل کھنڈ یونیورسٹی نے مردوں پر ہونے والے استحصال پر ریسرچ کرانے کی تجویز کو حتمی شکل دے دی ہے۔ ریسرچ کمیٹی نے سڑک سکیورٹی پر بھی ریسرچ کرانے کی تجویز پر مہر لگادی ہے۔
”ہیش ٹیگ می ٹو“ مہم نے کئی فلمی اداکاروں کے چہروں کو بے نقاب کر دیا تھا۔ حالانکہ اس میں کئی بے قصور لوگ بھی اس مہم کا شکار ہوگئے۔ اس کے علاوہ جہیز استحصال، عصمت دری، چھیڑ خوانی اور گھریلو استحصال وغیرہ کئی ایسے معاملے ہیں، جس میں مرد بھی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ایم جے پی روہیل کھنڈ یونیورسٹی نے مردوں کے ساتھ ہوںے والے داخلی تشدد پر ریسرچ کرنے کی تجویز پر مہر لگا دی ہے۔ اب نئے ریسرچ اسکالر مردوں سے ہونے والے استحصال کی حقیقت سے واقف کروانے کے لیے ریسرچ کر سکیں گے۔
ایم جے پی روہیل کھنڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کے پی سنگھ نے ریسرچ کے پرانے مضامین پر ریسرچ کے بجائے معاشرے کو نئے حالات اور نئی سمت دکھانے والے مضامین پر ریسرچ شروع کرانے کی تجویز دی ہے۔ پہلی مرتبہ طلباء نے جو اسناپسس پیش کیے، جو موجودہ مسائل و مشکلات پر مبنی تھیں، اُن تمام اسناپسس کو ریسرچ کے لیے منظوری مل گئی ہے۔ اس میں مردوں سے استحصال پر ریسرچ کرنے کی منظوری مل گئی ہے۔
دراصل یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق خواتین سے استحصال پر اب تک کئی طرح کی ریسرچ ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر میں خواتین کی سبھی مذاہب میں حیثیت، اُن کے ساتھ ہونے والے تشدد، اُن کے ساتھ داخلی تشدد سب سے اہم ہے، کیوں کہ کئی مرتبہ گھریلو خاتون اپنا گھر بچانے کے لیے شوہر سے مارپیٹ بھی برداشت کرتی ہیں اور ساتھ ہی وہ اپنے مائکہ میں اطلاع نہیں کرتی۔ خواتین کے خود کفیل ہونے، قانونی انصاف، فلم، مارکیٹنگ، آفیسر ہونے، تنہا زندگی بسر کرنے جیسے تمام موضوعات اور مسائل پر ریسرچ ہو چکی ہے۔ لیکن مردوں کے ساتھ بھی تشدد کی وارداتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ کبھی ریسرچ کا موضوع نہیں بن پایا۔
اب وائس چانسلر پروفیسر کے پی سنگھ نے مردوں پر استحصال موضوع پر رسرچ کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے علاوہ سڑک پر ہونے والے حادثات اور عوام کے تحفظ کے لیے روڈ سکیورٹی جیسے موضوعات پر بھی ریسرچ کو منظوری ملی ہے۔