مولانا شہاب الدین رضوی نے مزید کہا ہے کہ طالبان شدت پسند نظریہ کی تنظیم ہے. اس سے پہلے بھی ہماری تنظیم نے تشدد اور شدت پسند تنظیموں کی مذمت کی ہے اور ہمارا آج بھی وہی موقف ہے. بریلوی مسلک اور ہماری تنظیم نے نہ تو پہلے دہشتگردی اور شدت کو پسند کیا ہے اور نہ آج ہم اسے تسلیم کرنے کو تیار ہیں.
اُنہوں نے یو این او سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سے بیس برس قبل امریکہ نے افغانستان میں اس وعدے کے ساتھ قدم رکھا تھا کہ وہ طالبان کا خاتمہ کرےگا، لیکن اب بیس برس بعد امریکہ وہاں سے خاموشی کے ساتھ نکل گیا. نتیجہ یہ ہوا کہ طالبان نے محض ایک مہینے میں ہی پورے افغانستان پر اپنا قبضہ کر لیا. لہزا، امریکہ کے وہاں سے جانے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کی تحقیقات ہونی چاہیئے.
اُنہوں نے مزید کہا ہے کہ افغانستان دنیا کا سب سے مظلوم ملک ہے. اس ملک کی عوام نے بلا وجہ صدیوں تک خون خرابہ، تباہی، بربادی اور جنگ دیکھی ہے. ہزاروں بے قصور لوگوں کا ناحق خون بہایا گیا ہے. اللہ تبارک تعالیٰ نے اس ملک کو بے پناہ خزانوں سے نوازہ ہے، اس کے باوجود اس ملک میں خانہ جنگی، بارم بار اقتدار کا تبدیل ہونا سُپر ہاور ممالک کی بلا وجہ مداخلت نے اس ملک کو ترقی کے بجائے بربادی اور تباہی دی ہے. لہزا، نئے نظام سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ وہاں کے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے.
یہ بھی پڑھیں:
مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سجاد نعمانی کے بیان سے خود کو الگ کیا
مولانا شہاب الدین نے آگے کہا ہے کہ عام چرچہ ہے کہ طالبان اب افغانستان میں اسلامی قانون نافذ کرےگا. واقعی اگر وہاں اسلامی قانون کا نفاذ ہونے جا رہا ہے تو اسلام نے ہمیشہ انسانیت کو ترجیح دی ہے. حضور نبی اکرم صلی تعالیٰ وسلم اور اُن کے خلفاء کے دور میں غیر مسلمانوں کے ساتھ بھی حسن و اخلاق کا سلوک پیش کیا جاتا تھا. کئ یہودیوں کو بھی بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا تھا. ان تمام خوبیوں، اخلاق، کردار، علم و عمل کی وجہ سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے. اسلام نے ہمیشہ خواتین کو بھی برابری حق دیا ہے، لیکن اُن کا دائرہ بھی قائم کیا ہے. ان تمام خوبیوں کی وجہ سے اسلام کو فروغ ملا ہے.
لیکن گزشتہ دو دہائ میں طالبان نے اسلام کی جو تصویر پیش کی ہے، اُس میں زبردستی تبدیل مذہب، خواتین پر ظلم و زیادتی، لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی، مساجد میں دہشت گردی، عام شہری میں عدم تحفظ کا احساس وغیرہ جیسے پیغام نے اسلام کی تصویر کا داغداد کیا ہے. لہزا، نئے نظام سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ اسلام کے نظریہ سے قانون نافذ کرتا ہے تو اُس میں اسلام کی قدیمی اور انصاف پسندی کی تصویر بھی نظر آنی چاہیئے.