حکومت اتر پردیش کی جانب سے کورونا انفیکشن کے بڑھتے معاملوں کے پیش نظر عبادت گاہوں پر اب صرف پانچ افراد ہی عبادت کر سکتے ہیں۔ جس پر اتوار کے روز شہر میرٹھ کے علماء، ائمہ کرام، وکلاء اور دانشوران نے حکومت سے عبادت گاہوں کے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی۔ حکومت کی جانب سے جاری نئی گائڈ لائنس آنے کے بعد میرٹھ کی خدیجہ مسجد میں شہر کے علماء کرام ائمہ مساجد، وکلاء اور دانشوران کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں شہر کے ذمہ داروں نے کورونا سے متعلق حکومت کی موجودہ گائڈ لائنس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارک، پبلک ٹرانسپورٹ، و غیر سرکاری دفاتر اور دکانوں کو چند شرائط کے ساتھ کھولنے نیز طے شدہ پنچایت چناؤ کے انعقاد کی اجازت دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ سنیماہال، محدود تعداد میں شادی بیاہ اور شراب خانوں کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن مندر، مسجد، گرجا گھر اور گردوارہ کو بند کرنے کو کہا گیا ہے۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ کورونا جیسی مہلک وبا پر قابو پانے کے لئے حکومت نے جو احتیاطی اقدامات کئے ہیں ہم ان کی تائید اور سراہنا کرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کی فکرمندی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔ بلا شبہ پیشگی حفاظتی اقدامات کے طور پر یہ تدابیر اتر پردیش کے عوام کے لئے مفید اور ضروری ہیں۔ تاہم عبادت گاہوں کو بند کرنا مناسب نہیں ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل میرٹھ کے صدر قاری شفیق الرحمان نے کہا کہ رمضان المبارک ایک مقدس اور پاک پروردگار سے مانگنے کا ایک بہترین مہینہ ہے. پچھلا رمضان بھی ہم نے گھروں میں گزار دیا اب اس مرتبہ بھی یہی صورت حال پیش آگئی جو قابلِ تشویش ہے۔
جمعیت علمائے ہند کے ریاستی رکن اور ممبر اسمبلی نے کہا کہ مساجد کے لئے سو افراد کی اجازت کو ہی برقرار رکھا جائے جس سے اس مبارک مہینے میں کورونا کی پابندیوں کے ساتھ عبادت کرسکیں۔ عبادت گاہوں کو بند کرنے سے پریشانی بہت بڑھ جائے گی۔
اس لیے وزیر اعلیٰ اتر پردیش سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ جس طرح مارکیٹ و دیگر مقامات کھلے ہیں اسی طرح ماسک، سوشل ڈسٹینسنگ اور ادارہ صحت کی جانب سے جاری گائڈ لائنس پر عمل کرنے کے ساتھ عبادت گاہوں خاص طور پر مسجدوں کو نماز و تراویح کے لیے کھول دیا جائے۔