زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج 72 دنوں سے بدستور جاری ہے۔ دہلی سرحد کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں اس قانون کی مخالفت میں کسان احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔
میرٹھ میں بھی آج بھارتی کسان یونین کے ساتھ دوسری کسان تنظیموں کے کارکنان نے اس قانون کی مخالفت مظاہرہ کیا۔ واضح رہے کہ 06 فروری کو یوپی میں کسانوں کے چکا جام کو واپس لینے کے بعد بھارتی کسان یونین کے کارکنان نے ضلع کلکٹریٹ پہنچ کر میورنڈم سونپا۔
اس موقع پر میرٹھ کے بھارتی کسان یونین کے جنرل سیکریٹری ستویر جنگیٹھی نے کہا کہ پوری ریاست میں آج چکا جام کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر کل شام کو اس فیصلے کو منسوخ کرنا پڑا۔ اس لیے آج ہم نے ضلع کلکٹریٹ پہنچ کر زرعی قوانین کو واپس لینے کے لیے میورنڈم دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہلی سرحد پر احتجاج کے دوران تقریبا 150 سے زائد کسان بھائی ہلاک ہوچکے ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے ایک بار بھی اس بارے میں بات نہیں کی۔
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کسان تحریک کو غلط انداز میں دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دیپ سندھو نے 26 جنوری کو ہمارے ذریعہ نکالی گئی پرامن ریلی کو بدنام کیا ہے۔ لال قلعہ میں جو بھی ہوا وہ ایک سازش کا حصہ تھا۔ دہلی سرحد پر آہنی کیلوں، سلاخوں، خاردار تاروں، پتھروں اور دیواروں کا استعمال کیا جارہا ہے تاکہ زرعی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسان دہلی میں داخل نہ ہو سکیں۔ کیا ہم کسان حکومت کو دہشت گرد نظر آتے ہیں۔ ہم ان خاردار کیلوں پر پھول بچھا کر امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
بھارتی کسان یونین کے ضلع صدر منوج تیاگی نے کہا کہ ہماری آگے کی حکمت عملی یہ ہے کہ ہم غازی پور سرحد پر جارہے ہیں۔ کسانوں کو تمام ضروری اشیاء یہاں سے فراہم کی جارہی ہیں تاکہ احتجاج جتنا بھی لمبا چلے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہو۔