توقیر رضا خاں اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت گھر سے ہاتھرس جانے کے لیے نکلے تھے۔ اس کی اطلاع پولیس کو پہلے ہی مل چکی تھی۔ لہذا وہ جیسے ہی اپنے گھر سوداگران سے ہاتھرس جانے کے لیئے قافلہ کے ساتھ نکلے، پولس نے شہر کی بہاری پور چوکی کے پاس اُنہیں حراست میں لے لیا۔
آل انڈیا اتّحاد ملّت کونسل ”اے آئی آئی ایم سی کے قومی صدر مولانا توقیر رضا خاں نے دو دن قبل اعلان کیا تھا کہ وہ ہاتھرس میں عصمت دری کی متاثرہ کے کنبہ سے ملاقات کرنے کے لیے 3 اکتوبر کو ہاتھرس کے لیے روانہ ہونگے۔
اُنہوں نے اپنے تمام عہدے داران اور کارکنان کے ساتھ ایک میٹنگ منعقد کرکے حکمت عملی تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں طے ہوا تھا کہ مولانا توقیر رضا خاں کونسل کے قومی ترجمان ڈاکٹر نفیس خاں، ڈویژنل انچارج ندیم خاں کے علاوہ تمام عہدے داران اور کارکنان کے ساتھ 3 اکتوبر کو دوپہر تقریباً بارہ بجے اپنے گھر سوداگران سے ہاتھرس کے لیئے روانہ ہونگے۔
ہاتھرس پہنچ کر وہ متاثرہ کے مظلوم کنبہ سے ملاقات کرکے اُنہیں کچھ مالی اعانت بھی فراہم کرے گا۔ اس دوران پولیس نے مولانا توقیر رضا خاں کے گھر کے باہر زبردست بیریکیڈنگ کرکے محاصرہ قائم کر لیا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک سٹی مجسٹریٹ مدن کمار، سی او فرسٹ دلیپ کمار، شہر کوتوال گیتیش کپل اور مولانا توقیر کے درمیان اس بات پر بحث و مباحثہ ہوتا رہا کہ مولانا توقیر رضا اپنا طے پروگرام ملتوی کر دیں۔ لیکن مولانا ہاتھرس جانے کی ضد پر قائم رہے۔
لہذا پولیس نے بہاری پور چوکی کے پاس سخت بیری کیڈنگ کرکے مولانا کے قافلہ کو روک لیا۔ ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران نے مولانا کو کافی دیر سمجھایا اور آخرکار اُنہیں تمام عہدے داران اور کارکنان کے ساتھ حراست میں لے لیا۔
پولس حراست میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا توقیر رضا خاں نے ہاتھرس معاملے پر رنج و غم کا اظہار کیا اور متاثرہ لڑکی کے ساتھ ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران کے رویہ کو بیحد ظالمانہ سلوک قرار دیا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی نے حکومت اترپردیش کو غلط رہنمائی کی۔ جس کی وجہ سے حالات زیادہ خراب ہو گئے۔ لہذا ڈی ایم اور ایس پی کو معطل کرنا مکمل کارروائی نہیں ہے، بلکہ ان دونوں اعلیٰ افسران کے خلاف مقدمہ قائم کرکے جیل میں ڈالا جانا چاہیے۔