حیدرآباد: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے آج اسلامی اسکالر و داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی کو ضمانت دے دی ہے، جنہیں ستمبر 2021 میں اتر پردیش پولیس کے انسداد دہشت گردی ٹیم نے ریاست میں بڑے پیمانے پر مذہبی تبدیلی کا ریکیٹ چلانے اور 1000 سے زیادہ لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ سینئر وکیل و مولانا کے کیس کو دیکھنے والی لیگل ٹیم میں شامل عامر نقوی نے ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مولانا کلیم صدیقی کی ضمانت عرضی کی سماعت الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے جسٹس مسعودی کی قیادت والی بنچ نے کی۔ عدالت نے پراسیکیوشن اور عرضی گذار کے دلائل سننے کے بعد مولانا کی ضمانت عرضی کو منظور کرلیا۔ این آئی اے کی طرف سے ایڈوکیٹ تلہری اور مولانا کلیم صدیقی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ آئی بی سنگھ نے جرح کی۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2021 میں یوپی اے ٹی ایس نے بیرون ممالک فنڈنگ کے تحت ملک میں مبینہ تبدیلی مذہب کرانے والے گروہ کے انکشاف کے دعوی کے ساتھ معروف اسلامی اسکالر مولانا کلیم صدیقی کو مبینہ تبدیلی مذہب کیے الزام میں گرفتار کرتے ہوئے کئی سنگین دفعات عائد کی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ سے ضمانت کی عرضی کو نچلی عدالت میں پیش کیا جائے گا جس کے بعد مولانا کی رہائی ممکن ہوسکے گی۔ واضح رہے مولانا کی گرفتاری کے وقت پولیس نے دعوی کیا تھا کہ مولانا کلیم صدیقی مبینہ تبدیلی مذہب کے کام میں ملوث ہیں اور مختلف طرح کے تعلیمی، سماجی اداروں کی آڑ میں تبدیلی مذہب کا کام ملک گیر سطح پر چلا رہے ہیں۔ اس کے لیے بیرون ممالک سے فنڈنگ کی جارہی ہے۔ اس کام میں ملک کے کئی معروف لوگ اور ادارے شامل ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ مولانا بھارت کا سب سے بڑا تبدیلی مذہب سنڈیکیٹ چلاتے ہیں اور غیر مسلموں کو گمراہ کر کے اور ڈرا دھمکا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں۔
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کے بعد مبینہ تبدیلی مذہب کے معاملے میں اے ٹی ایس نے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا۔ اس معاملے مولانا کلیم صدیقی سے قبل اے ٹی ایس نے 20 جون کو مولانا عمر گوتم اور مفتی جہانگیر عالم کو گرفتار کر کے دعوی کیا تھا کہ یہ لوگ بڑے پیمانے پر جبراً تبدیلی مذہب کا کام کر رہے تھے۔ مولانا کی گرفتاری کے بعد اے ٹی ایس نےدعوی کیا تھا کہ مولانا سے پوچھ گچھ کے دوران کئی اہم جانکاریاں سامنے آئی ہیں اس میں ان کے ادارے جمیعتہ امام ولی اللہ الاسلامیہ ٹرسٹ سے وابستہ کھاتوں میں 20 کروڑ روپے آنے کی بات بھی شامل ہے۔ جس میں سے بڑی رقم مولانا کلیم نے اپنے ساتھ تبلیغ اسلام کرنے والوں کو بھیجی ہے۔ جو پیسے ٹرسٹ کے کھاتوں میں آئے ہیں مولانا کلیم ان کے ذرائع نہیں بتا سکے ہیں۔
اے ٹی ایس نے الزام لگایا تھا کہ کلیم صدیقی ایک جانب جہاں سماجی ہم آہنگی کے پروگرام کی آڑ میں طرح طرح کے لالچ دے کر مبینہ تبدیلی مذہب کا سنڈیکیٹ چلاتے تھے وہیں دوسری طرف اس سنڈیکیٹ کے ذریعہ کرائے گئے تبدیلی مذہب کے عوض میں بیرون ممالک سے موٹی رقم حاصل کی جاتی تھی اور اس رقم کا استعمال ذاتی زندگی اور غیر قانونی املاک کو حاصل کرنے میں کیا جاتا تھا۔
بتادیں کہ مولانا کلیم صدیقی مغربی اتر پردیش کے مشہور علماء میں سے ایک ہیں۔ وہ گلوبل پیس سینٹر کے چیئرمین بھی ہیں۔ وہ جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ بھی چلاتے ہیں اور مدرسہ جامعہ امام ولی اللہ اسلامیہ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ویکیپیڈیا میں دستیاب معلومات کے مطابق مولانا کلیم صدیقی بھارت میں اسلام کے بڑے مبلغین میں سے ایک ہیں۔ وہ پری میڈیکل امتحان کے لیے منتخب بھی ہوئے تھے، مگر طب کے مطالعے اور طبابت کے پیشے کی بجائے انہوں نے تبلیغ اسلام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ کلیم صدیقی پُھلت، مظفر نگر ضلع، اتر پردیش (شاہ ولی اللہ کا نانیہال) کے رہنے والے ہیں جہاں وہ ایک مدرسہ بھی چلاتے ہیں۔ مولانا کو محمد عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر قاسمی سمیت دیگر مسلم علماء کے ساتھ یوپی کے 'اینٹی لو جہاد' قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
مظفر نگر کے کھتولی اسمبلی حلقے کے گاؤں پھولت میں مولانا کلیم صدیقی گزشتہ کئی برسوں سے ایک مدرسے کے جنرل منیجر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گاؤں والوں کے مطابق مولانا کلیم صدیقی غریب اور بے سہارا بچوں کے لیے ایک سماجی تنظیم بھی چلاتے ہیں اور غریب لوگوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ دہلی شاہین باغ میں بھی رہتے ہیں جب کہ ان کے بھائی اور بھتیجے گاؤں پھولت میں کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ دودھ کی ڈیری چلاکر روزی روٹی کمارہے ہیں۔
مزید پڑھیں: