علی گڑھ: اترپردیش كے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، شعبہ رابطہ عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق یونیورسٹی کی بوائز پالی ٹیکنک میں منعقد مشاعرہ میں ملک کے نامور شعراء نے حب الوطنی اور عام سماجی موضوعات پر اپنا کلام پیش کیا۔ کووِڈ وبا کے تعطل بھرے دور کے بعد منعقد ہونے والے اس آف لائن مشاعرے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ Mushaira in at Aligarh Muslim University
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی كے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے مشاعرے کی صدارت کی جب کہ مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر آذرمی دخت صفوی شریک ہوئیں۔ پروفیسر صفوی نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ مشاعروں سے ادبی و تہذیبی ذوق کی آبیاری ہوتی ہے اور انسان کے جذبات اور عقل کو جس انداز میں شعراء متاثر کرتے ہیں کوئی اور نہیں کرتا۔ آرٹس فیکلٹی کے قائم مقام ڈین کے طور پر پروفیسر عارف نذیر مشاعرے میں موجود رہے۔
یہ بھی پڑھیں:Muslim Women And Students Lead Tiranga Rally مظفر نگر میں ہزاروں اسکولی لڑکیوں نے ترنگا یاترا نکالی
مشاعرے کی ابتداء میں استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے حاضرین کو یوم آزادی کی مبارکباد پیش کی۔انھوں نے کہاکہ جشن آزادی مشاعرے کا مقصد اپنے اسلاف و اکابر کے کارہائے نمایاں اور قربانیوں کی یادیں تازہ کرنا ہے۔
پروفیسر جوہر نے کہا کہ شعرائے اردو اور علی گڑھ کے فارغین نے تحریک آزادی میں اہم کردار کیا جس میں مولانا حسرت موہانی، علی برادران، معین احسن جذبی، علی سردار جعفری، شمیم کرہانی، کیفی اعظمی وغیرہ کے نام فوراً ہی ذہن میں آتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور مشترکہ ثقافتی وراثت کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ کثرت میں وحدت کی جلوہ گری ہندوستان کی منفرد شناخت ہے۔ مشاعرے کی نظامت پروفیسر سید سراج اجملی نے کی۔ شعراء کا منتخب کلام پیش خدمت ہے:
دل نے کہا کہ مانگ لوں، میں نے کہا نہ مانگ
صدیوں سے بے وفا ہے جو اس سے وفا نہ مانگ
(پروفیسر خالد محمود)
گھر چاہئے تمھیں تو اِدھر عاشقوں میں آؤ
وہ جو رقیب ہیں در و دیوار لوگ ہیں
(فرحت احساس)
لئے پھرتے ہیں غم اِس کا اور اُس کا
کہ جیسے اپنا کوئی غم نہیں ہے
(ڈاکٹر مہتاب حیدر نقوی)
اک زیاں جان کا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی
اس سے ملنے میں کئی طرح کی دشواری تھی
(پروفیسر احمد محفوظ)
اے میری خاک وطن کب ہے ضرورت میری
میں بھی تیار ہوں تیار ہے مٹی میری
(پروفیسر کوثر مظہری)
بس ایک وہ نہیں آیا جسے پکارا تھا
جنھیں پکارا نہیں تھا وہ بار بار آئے
(عالم خورشید)
تذکرہ ایسے مسیحا کا بھلا کیا کرتے
جس نے خود اپنے ہی بیمار سے پرہیز کیا
(پروفیسر شہاب الدین ثاقب)
وہ تو نکلا ہی نہیں ہے گھر سے
حشر پھر کیسے بپا ہوگیا ہے
(سراج اجملی)
ٹوپی ہے سجی ماتھے پہ، داڑھی بھی گھنی ہے
مشکوک میری اس لئے حب الوطنی ہے
(عابد علی عابد)
دنیا کی بات بات پہ اس کی نظر تو ہے
شاید میرے عزیز کو میری خبر نہیں
(ڈاکٹر سلمیٰ شاہین)
نا امیدی سے جدا امید ہوتی ہے مگر
فرق اب کرتا یہاں دیوار و در میں کون ہے
(راحت حسن)
بس اسی وجہ سے قائم ہے مری صحت عشق
یہ جو مجھ کو تیرے دیدار کی بیماری ہے
(سالم سلیم)
ساقی شراب دے کہ نہ دے اس کا غم نہیں
لیکن مجھے جواب نہ دے بے رخی کے ساتھ
(معراج نشاط)
عجیب ضد ہے یہ گھر توڑ دے گی رشتے بھی
وہ چاہے کوئی ہو دیوار مت اٹھانے دے
(سرور ساجد)
تمھارے واسطے اک کھیل ہے کارِ محبت
مگر اس کھیل میں نقصاں ہمارا ہورہا ہے
(سرفراز خالد)
یہ کیسا جنوں ہے کہ سوالات کرے ہے
قسمت میں فقط لفظِ تمنا ہے کہ تم ہو
(ممتاز اقبال)