دموہ: مدھیہ پردیش کے دموہ میں واقع گنگا جمنا اسکول میں ہندو لڑکیوں کے اسکارف پہننے کے معاملے پر شروع ہونے والا تنازع سنگین رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہندو تنظیموں کی طرف سے اسکول اساتذہ اور ذمہ داروں پر تبدیلی مذہب سمیت دیگر الزامات لگائے جانے کے بعد گنگا جمنا اسکول کے ڈائریکٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کے جانے کے بعد وزیر اعلی شیوراج سنگھ نے اب تفصیلی انکوائری کا حکم دیا ہے۔
وہیں ذرائع ابلاغ اور ہندو تنظیموں نے اس معاملے میں اسکول کے ڈائریکٹر محمد ادریس خان اور ان کے بھائی کے پس منظر، ان کے کاروبار اور زمین جائیداد کو کھنگھالتے ہوئے انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گنگا جمنا اسکول کے ڈائریکٹر محمد ادریش خان اور ان کے بھائی مشتاق خان کا تیندو پتے کا بڑا کاروبار ہے۔ بھوپال میں ان کی کپڑے کی فیکٹری، ہارڈ ویئر کے ساتھ ساتھ ریت کی کان کنی کا کاروبار ہے۔ ان کا کاروبار تقریباً 1800 ایکڑ رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ دموہ کے ارد گرد تقریباً 300 ایکڑ اراضی بھی اسکول آپریٹر کے پاس ہے۔ پٹرول پمپ کے علاوہ ان کی گنگا جمنا نام کی دالوں کی مل بھی ہے۔ اس مل کی دالیں سعودی عرب میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ ان کے پاس گنگا جمنا دھرمکانٹا اور نئی دہلی، بھوپال، جبل پور، بنگلور اور حیدرآباد میں بھی بہت سے فلیٹ، دفاتر اور گھر ہیں۔ ہندو لڑکیوں کے اسکارف پہننے پر ہندو تنظیموں نے اسکول ڈائریکٹر پر متعدد الزامات عائد کیے ہیں۔ حالانکہ بچیوں اور ان کے سرپرستوں نے اس معاملے میں کسی قسم کی زور زبردستی کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
MP Hijab Poster Controversy ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا، جانچ میں خلاصہ
معاملہ سرخیوں میں آنے کے بعد وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے سی ایس اور ڈی جی پی کو اس معاملے کی جانچ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے جانچ کے لیے انکوائری کمیٹی بنانے کا بھی کہا ہے۔ اسی کے ساتھ شیوراج سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ تبدیلی مذہب کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ چوہان نے کہا، "جو لوگ ایسے ارادے رکھتے ہیں انہیں سخت سزا ملے گی۔
مزید پڑھیں: Ganga Jamuna School گنگا جمنا اسکول کا رجسٹریشن منسوخ
انہوں نے کہا کہ دموہ کیس میں، ہمیں رپورٹ مل رہی ہے کہ جن بیٹیوں نے اپنے بیانات دیے ہیں، انہیں مجبور کیا گیا۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ پہلے ہم اس معاملے کی ایف آئی آر درج کر رہے ہیں، سخت کارروائی کی جائے گی۔" قابل ذکر ہے کہ دموہ کے گنگا جمنا اسکول کی انتظامیہ نے اس معاملے پر اپنے میں کہا تھا کہ اسکارف اسکول کے ڈریس کوڈ کا حصہ ہے لیکن لازمی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی کو مجبور کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں نے اپنی مرضی اور شوق سے اسکارف پہنا تھا۔ وہیں بچیوں اور ان کے سرپرستوں نے بھی اسکول انتظامیہ کے دعووں کے حق میں بیانات دیے تھے، اس کے باوجود ہندو تنظیمیں اس معاملے پر مسلسل سرگرم ہیں۔