ETV Bharat / state

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران، پریوار چلانا مشکل - لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران

زردوزی کا پیشہ بھارت میں زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو دیوی دیوتاؤں کو اس فن کے ذریعہ آراستہ کیا جاتا تھا۔ لکھنؤی زری کا کام بھلے ہی بھارت اور دوسرے ممالک میں مقبول ہو، لیکن اب یہ زردوزی کاریگر فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحرانلکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
author img

By

Published : May 15, 2021, 9:19 PM IST

زردوزی بھارت میں زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دور اقتدار میں اس شعبے کے ایرانی فنکاروں کو بھارت میں فروغ دیا اور اس کے بعد سے زردوزی مغلیہ دور حکومت کی شان و شوکت بن گئی۔


زردوزی کا فن مغل دور حکومت میں بلندیوں کو پہنچا۔ اس کے بعد اودھ کے نوابوں نے لکھنؤ کو زردوزی کا مرکز بنا کر اس کام میں چار چاند لگا دیا۔ لیکن آج اس کی حالات تشویش ناک ہیں، خاص طور پر گذشتہ سال سے، جب سے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران


ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران زردوزی کے کاریگر سید ناصر علی نے بتایا کہ میں 15 سال سے اس پیشے میں منسلک ہوں۔ ہمیں پہلے بھی کم پیسے ملتے تھے لیکن پریوار کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے، کیونکہ مہنگائی کم تھی۔

اب مہنگائی آسمان پر ہے اور پیسے پہلے کی طرح ہی مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو مستقبل میں یہ کام ختم ہوجائے گا کیونکہ اس کے فنکار مجبوری میں دوسرے کاموں میں ذریعہ معاش تلاش کرنے کے لیے چلے گئے ہیں۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران


کارخانہ مالک محمد کلیم نے کہا کہ ہماری اتنی آمدنی ہو جاتی ہے کہ پریوار کا پیٹ بھر سکیں، ورنہ اس کام میں اب کوئی منافع نہیں رہا۔ اگر حکومت چاہے تو ہمارے دن بہتر ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آواز، ہمارے مسائل اور ہماری پریشانیوں کو حکومت تک پہنچانے والی کوئی انجمن نہیں ہے۔ اگر حکومت نے مدد نہ کی تو یہ کام جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک دن میں کاریگروں کو محض 150-160 روپے ہی مل پاتے ہیں جبکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران


کارخانہ مالک اطہر نے بتایا کہ پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی اور اب کورونا وبا نے کاریگروں کی کمر توڑ دی ہے۔ اگر حکومت نے وقت رہتے ہماری مالی امداد نہ کی اور 'لون' نہ دیا تو بہت جلد زری کا کام دم توڑ دے گا۔


انہوں بتایا کہ نئے لوگ اس کام کو سیکھ نہیں رہے ہیں اور جو لوگ کام کر رہے ہیں، وہ مجبوری میں لگے ہوئے ہیں ۔کیونکہ انھیں کوئی دوسرا کام نہیں آتا لہذا زردوزی کا مستقبل روشن کرنے کے لئے حکومت زمینی حقائق سے واقفیت رکھتے ہوئے بہتر پالیسی بنائے، جس سے کاریگروں کی پریشانی دور ہو سکے ۔


آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ جن کاریگروں کو اس کام کے لیے محض 150-200 روپے ملتے ہیں، وہیں زری کے کپڑے شو روم میں پہنچتے ہی ہزاروں روپے میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف جہاں اس کام کے لیے کاریگروں کو کم پیسے ملتے ہیں، وہیں یہ کاریگر آنکھ کی روشنی میں کمی، کمر درد اور دوسرے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

زردوزی بھارت میں زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دور اقتدار میں اس شعبے کے ایرانی فنکاروں کو بھارت میں فروغ دیا اور اس کے بعد سے زردوزی مغلیہ دور حکومت کی شان و شوکت بن گئی۔


زردوزی کا فن مغل دور حکومت میں بلندیوں کو پہنچا۔ اس کے بعد اودھ کے نوابوں نے لکھنؤ کو زردوزی کا مرکز بنا کر اس کام میں چار چاند لگا دیا۔ لیکن آج اس کی حالات تشویش ناک ہیں، خاص طور پر گذشتہ سال سے، جب سے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران


ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران زردوزی کے کاریگر سید ناصر علی نے بتایا کہ میں 15 سال سے اس پیشے میں منسلک ہوں۔ ہمیں پہلے بھی کم پیسے ملتے تھے لیکن پریوار کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے، کیونکہ مہنگائی کم تھی۔

اب مہنگائی آسمان پر ہے اور پیسے پہلے کی طرح ہی مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو مستقبل میں یہ کام ختم ہوجائے گا کیونکہ اس کے فنکار مجبوری میں دوسرے کاموں میں ذریعہ معاش تلاش کرنے کے لیے چلے گئے ہیں۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران


کارخانہ مالک محمد کلیم نے کہا کہ ہماری اتنی آمدنی ہو جاتی ہے کہ پریوار کا پیٹ بھر سکیں، ورنہ اس کام میں اب کوئی منافع نہیں رہا۔ اگر حکومت چاہے تو ہمارے دن بہتر ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آواز، ہمارے مسائل اور ہماری پریشانیوں کو حکومت تک پہنچانے والی کوئی انجمن نہیں ہے۔ اگر حکومت نے مدد نہ کی تو یہ کام جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک دن میں کاریگروں کو محض 150-160 روپے ہی مل پاتے ہیں جبکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔

لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران
لکھنؤ کے زردوزی کاریگروں کے سامنے بڑا بحران


کارخانہ مالک اطہر نے بتایا کہ پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی اور اب کورونا وبا نے کاریگروں کی کمر توڑ دی ہے۔ اگر حکومت نے وقت رہتے ہماری مالی امداد نہ کی اور 'لون' نہ دیا تو بہت جلد زری کا کام دم توڑ دے گا۔


انہوں بتایا کہ نئے لوگ اس کام کو سیکھ نہیں رہے ہیں اور جو لوگ کام کر رہے ہیں، وہ مجبوری میں لگے ہوئے ہیں ۔کیونکہ انھیں کوئی دوسرا کام نہیں آتا لہذا زردوزی کا مستقبل روشن کرنے کے لئے حکومت زمینی حقائق سے واقفیت رکھتے ہوئے بہتر پالیسی بنائے، جس سے کاریگروں کی پریشانی دور ہو سکے ۔


آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ جن کاریگروں کو اس کام کے لیے محض 150-200 روپے ملتے ہیں، وہیں زری کے کپڑے شو روم میں پہنچتے ہی ہزاروں روپے میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف جہاں اس کام کے لیے کاریگروں کو کم پیسے ملتے ہیں، وہیں یہ کاریگر آنکھ کی روشنی میں کمی، کمر درد اور دوسرے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.