نوابوں کا شہر لکھنؤ تہذیب و ادب کا گہوارہ ہے، یہاں کی ہر شام شاعرانہ انداز لیے ہوئے ہوتی ہے جبکہ اس شہر نے دنیا کو ایک سے بڑھ کر ایک شاعر دیے ہیں جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی اپنی شاعری کی چمک بکھیری ہے۔
شعرا کے اس شہر میں لاک ڈاؤن نے ایسا اثر دکھایا کہ یہاں کے بہت سارے شاعر معاشی بحران کا شکار ہوگئے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران نوجوان شاعر حامد لکھنوی نے بتایا کہ تنگ دستی کے سبب وہ ای رکشہ چلانے پر مجبور ہیں کیونکہ گھریلو اخراجات شعر و شاعری سے پورے نہیں ہو رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی تک مشاعرہ میں پڑھنے کے لیے بہت زیادہ پیسے نہیں ملے۔
حامد لکھنوی نے بتایا کہ وہ اس امید سے اتر پردیش اردو اکادمی بھی گئے تھے کہ شاید وہاں سے کسی قسم کی مدد ہو جائے لیکن مایوسی ہی ہاتھ لگی۔
واضح رہے کہ اتر پردیش اردو اکادمی شعرا، ادبا اور مصنفین کو ماہانہ پینشن دیتی ہے تاکہ ان کے اخراجات پورے ہوتے رہیں لیکن اکادمی کی جو شرائط ہیں۔ اس کے لیے 60 برس عمر ہونا لازمی ہے۔ ایسے میں نوجوان شاعر حامد لکھنوی کو اکادمی کی جانب سے کوئی مالی امداد نہیں ملی۔
حامد لکھنوی بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ 6 برسوں سے ای رکشہ چلا رہے ہیں۔ اہلخانہ میں بیوی اور ایک بیٹی ہے۔ ایسے مشکل حالات میں صرف شعر و شاعری سے پریوار کی کفالت بہت مشکل ہو رہی تھی لہذا میں مجبوراً انہیں رکشا چلانا پر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'کہیں سے بھی کسی طرح کی مدد نہیں مل رہی ہے۔ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے سبب مزید مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔ ایک دن میں بمشکل 200 سے 300 روپے آمدنی ہو پاتی ہے جبکہ اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
- حامد لکھنوی کی غزل درج ذیل ہے۔
خوشی کے دیپ لے کر ہم جہاں ہنستے ہوئے نکلے
ہمیں محصور کرنے رنج و غم کے قافلے نکلے
کبھی پربت کی وادی سے کبھی دریا کی موجوں سے
ذرا سا حوصلہ رکھا تو کتنے راستے نکلے
غنیمت ہے وہ میرے وقت پر کام آگئے حامد
جنہیں کھوٹا سمجھتے تھے وہی سکے کھرے نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا وہ ملک کی سنگین کرتے رہتے ہیں
غریب لوگوں کی توہین کرتے رہتے ہیں
یہاں تو بھوک سے آتی نہیں نیند ہمیں
وہ اپنی راتوں کو رنگین کرتے رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لے کے سیاست کی دفلی سب آئیں گے
ہم کو دکھانے اپنے کرتب آئیں گے
اس کی حویلی میں ہر شام سہانی ہے
میرے گھر میں اچھے دن کب آئیں گے